کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 112
کی طرف توجہ کی ضرورت نہیں۔
2۔ اگر قرآن میں تاویل کی گنجائش ہو، مختلف مطالب کا احتمال ہو تو سنت کا فیصلہ ناطق ہوگا قرآن کا وہی مفہوم درست ہو گا، جس کی تائید سنت سے ہوتی ہو۔
3۔ اگر قرآن کسی حکم کے متعلق بالکل ہی خاموش ہو تو عمل سنت پر ہو گا۔ وہ سنت فقہا میں متعارف اور معلوم ہو یا کسی شہر کے ساتھ مخصوص یا کوئی خاص خاندان اسےروایت کرے۔ کسی نے اس پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو، ائمہ حدیث اسے قابل استناد سمجھیں گے۔
4۔ جب کسی مسئلے میں حدیث مل جائے تو کسی مجتہد اور امام کی پروانہ کی جائے گی اور نہ کوئی اثر قابل قبول ہوگا۔
5۔ جب پوری کوشش کے باوجود حدیث نہ ملے تو صحابہ اور تابعین کے ارشادات پر عمل کیا جائے گا اور اس میں کسی قوم اور شہر کی قید یا تخصیص نہیں ہو گی۔
6۔ اگر جمہور فقہاء اور خلفا متفق ہو جائیں تو اسے کافی سمجھا جائے گا۔
7۔ اگر فقہا میں اختلاف ہو تو زیادہ متقی اور ضابط کی حدیث قبول کی جائے گی یا پھر جو روایت زیادہ مشہور ہو، اسے لیا جائے گا۔
اگر علم وفضل، ورع و تقوی اور حفظ و ضبط میں سب برابر ہیں تو اس مسئلے میں متعدد اقوال تصور ہوں گے، جس پر جی چاہے عمل کرے، اس میں کوئی حرج نہیں، نہ اس میں کوئی ضیق پیدا کیا جائے۔
9۔ اگر اس میں بھی تسکین بخش کامیابی نہ ہو تو قرآن و سنت کے عمومات اقتضا اور ارشادات پر غور کیا جائے گا اور مسئلہ زیر بحث کے نظائر کے حکم کو دیکھا جائے گا اور حکم استخراج کیا جائے گا۔ اصول فقہ کے مروجہ قواعد پر اعتماد نہ کیا جائے گا، بلکہ طمانیت قلب اور ضمیر کے سکون پر اعتماد کیا جائے گا۔ جس طرح متواتر روایات میں اصل چیز راویوں کی کثرت نہیں، بلکہ اصل شے دل کا اطمینان اور سکون ہے۔