کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 111
مال مسروق کی صورت اگر بدل جائے، مثلاً غلہ اگر پیس دیا جائے یا جانور ذبح کر کے اس کا گوشت بنا دیا جائے تو فقہائے کرام کے نزدیک چور کے تمام تصرفات مالکانہ ہوں گے۔ فقہائے حدیث ان ظاہری تبدیلیوں کے باوجود سارق کے مالکانہ حقوق کو تسلیم فرماتے ہیں نہ اسے مزید تصرفات کی اجازت دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس مال میں گو بظاہر تبدیلی آگئی ہے، لیکن چور بدستور چور ہے۔ جب تک وصف موضوع معلوم اور ثابت ہے، تصرفات کی بنا پر چور کو مالک نہیں کہہ سکتے۔ نص﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا﴾ (المائدة:38)کا مقصد یہ ہے کہ جب تک سارق سارق ہے، مال مسروق ہے، اس کی خریدو فروخت جس طرح اس کی اصل صورت میں ممنوع ہے، اسی طرح تبدیل شدہ صورت میں بھی اس میں تصرف شرعاً درست نہیں، بشرطیکہ سرقہ کا علم ہو۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ فقہائے عراق کے پاس اپنے مسلک کی حمایت کے لیے کوئی دلیل نہیں، انھوں نے ان مسائل کو درست ثابت کرنے کے لیے بڑے دلائل اور نظر وفکر کی گہرائیوں سے کام لیا ہے، لیکن محدثین کا اندازہ فکر چونکہ بالکل مختلف ہے، اس لیے وہ ان نکتہ نوازیوں پر مطمئن نہیں ہو سکے۔ وہ بدستور ان مسائل کو ظاہر سنت کے خلاف سمجھتے رہے، ان نکتہ آفرینیوں کو رائے سے تعبیر کرتے رہے اور اہل الرائے کے دلائل حدیث و سنت کے مقابلے میں ان کی تسلی نہ کرسکے۔ فقہانے اپنے اصول کی حمایت کے لیے احادیث کو نظر انداز کردیا اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ضعاف اور موقوفات کوقبول کر لیا۔ فقہ الحدیث کے اصول: حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ائمہ حدیث کی فقہ یا فقہ الحدیث کے بنیادی اصول مندرجہ ذیل ذکر فرمائے ہیں: 1۔ جب قرآن میں کوئی حکم صراحتاً موجود ہو تو اہل حدیث کے نزدیک کسی دوسری چیز