کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 110
یہ صراحت سنت میں ہے۔ جو قاعدہ تعیین رضعات کے متعلق بنایا گیا تھا، مدت رضاع اور باقی رشتوں کی حرمت کے سلسلے میں اسے توڑ دیا گیا۔ ماحول کتناہی مخدوش کیوں نہ ہو، شاہ صاحب ایسے اصول پر کیسے مطمئن ہو سکتے تھے؟ اہل حدیث بھی ان علوم کو پڑھتے ہیں، لیکن وہ سنت کے بالمقابل کسی اصل کو قابل قبول نہیں سمجھتے۔ جہاں قرآن اور سنت کسی امرکی صراحت کردے، وہاں کوئی اصل قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اصول فقہ کو طالب علمی کی صلاحیت سے پڑھا جائے تو واقعی اس کی گرفت سخت ہوتی ہے۔ اگر ذرا گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ اصول اس قدروزنی نہیں رہتے۔ شاہ صاحب ایسے اصول کیسے قبول فرما سکتے ہیں؟ اسی لیے انھوں نے بڑی جرات سے فرمایا کہ مجھے فقہا محدثین کی راہ پسند ہے اور یہی نصیحت انھوں نے اپنے تلامذہ اور اپنے متعلقین کو تلقین فرمائی۔ [1] محدثین کی روش: البتہ محدثین اور فقہائے عراق میں اتنا فرق تھا کہ وہ نصوص کی موجود گی میں قیاس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے تھے، گو استنباط اور اجتہاد کے اصول اس کے ظاہر الفاظ کے خلاف فیصلےکا تقاضا کریں۔ فقہائے عراق رحمہم اللہ کا خیال ہے اصول نظر انداز نہیں ہو ں گے، چنانچہ اگر شراب کا سرکہ بنا لیا جائے تو یہ حلال ہی ہو گا اور ایسا کرنا درست بھی ہے، کیونکہ جب کسی چیز کی صورت ہی بدل جائے تو اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے لیکن محدثین کا خیال ہے کہ سرکہ بنانا درست نہیں اور اگر کوئی سرکہ بنا بھی لے تو حرمت بدستور قائم رہے گی، اس لیے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ حدیث میں شراب سے سرکہ بنانے کی صراحتاً ممانعت آئی ہے۔ [2]
[1] ۔ دیکھیں: تفهيمات الٰهيه(2/240) [2] ۔ صحيح مسلم، رقم الحديث(1983)