کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 109
جمعہ سے مستثنیٰ کرنے کے لیے مرفوع روایت میسر نہیں آسکی، وہاں صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر ہی سے قرآن عزیز کی تخصیص کاکام لے لیا گیا۔ ع دراز دستی ایں کوتاہ آستیناں ببیں[1] شاہ صاحب سمجھتے تھے کہ ایسے ہی اصول جن کی ساخت کے ساتھ ان کی شکست کی بنیاد بھی رکھ دی گئی ہو، دین کی بنیاد اور اجتہاد اور تفقہ کی اساس نہیں قرارپا سکتے۔ حضرات ائمہ اصول اور فقہائے حنفیہ تو آیت کے اس احترام کو بھی قائم نہ رکھ سکے۔ معلوم ہے کہ آیت میں رضاع کی وجہ سے صرف ماں کی حرمت کا ذکر ہے۔ نص قرآن میں کسی دوسرے رشتے کا ذکر نہیں، لیکن حدیث شریف میں حضرت علی سے مروی ہے: ((إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مِنَ الرَّضَاعِ مَا حَرَّمَ مِنْ النَّسَبِ)) [2] یعنی جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں، رضاع کی وجہ سے بھی حرام ہوں گے۔ اس مقام پر آیت کی وضاحت میں مزید وسعت حدیث سے ہوئی۔ یہ زیادت خبر واحد کی بناہی پر کی گئی ہے۔ اسی طرح آیت میں مدت رضاع کا کوئی ذکر نہیں۔ کس عمر میں دودھ پیا جائے تو وہ حرمت میں مؤثر ہوگا؟ آیت اس میں خاموش ہے، لیکن جمہور ائمہ کے نزدیک وہی رضاعت موثر ہوگی، جو بچے کی غذا بنے۔ حدیث شریف میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ((لا يحرم من الرضاع إلا ما فتق الأمعاء، وكان قبل الفطام)) هذا حديث حسن صحيح[3] دوسال کے بعد رضاعت کا کوئی اثر نہیں۔ مدت رضاع کا تذکرہ قرآن میں نہیں،
[1] ۔ ان کوتاہ آستینوں کی دراز دستی دیکھ! [2] ۔ صحیح سنن الترمذی(1146) وقال الترمذی ”حدیث علی حسن صحیح “نیز دیکھیں:صحیح البخاری، رقم الحدیث(2503)صحیح مسلم(1444) [3] ۔ صحیح سنن الترمذی، رقم الحدیث(1152)صحیح ابن حبان(4224)