کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 108
چھٹی مثال: 6۔ حرمت رضاع کے متعلق قرآن عزیز نے مطلقاً فرمایا: ﴿وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِيْٓ اَرْضَعْنَكُمْ﴾ (النساء:23)) ”تمھاری رضاعی مائیں بھی تم پر حرام ہیں۔ “ احناف اور موالک فرماتے ہیں کہ ایک قطرہ بھی اگر کسی کا دودھ پی لیا گیا ہو تو حرمت ثابت ہو جائے گی۔ قرآن عزیز نے رضاع میں کوئی مقدار معین نہیں فرمائی، اس لیے حرمت کے لیے ایک گھونٹ پینا اور دو سال پینا برا بر ہے۔ ائمہ حدیث اورشوافع کا خیال ہے کہ حدیث میں خمس رضعات موجود ہے۔ [1] اگر اس سے کم دودھ پیا جائے تو حرمت ثابت نہیں ہو گی۔ امام احمد کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔ احناف فرماتے ہیں کہ یہ حدیث خبر واحد ہے، اس سے قرآن کی تخصیص نہیں ہو سکتی، اس لیے حدیث سے صرف نظر کیا جائے گا اور قلیل و کثیر رضاع سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔ حالانکہ صورت اس طرح نہیں، اولاً یہاں تخصیص کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ قرآن عزیز کے اطلاق کے ساتھ قید لگائی گئی ہے۔ قرآن مجید میں جو چیز مطلقاً مذکورہے۔، حدیث نے خمس رضعات سے اسے مقید فرما دیا۔ رہا خبر واحد کا مظنون ہونا تو یہ بھی کامیاب عذر نہیں۔ خود فقہائے حنفیہ نے قرآن عزیز کی تخصیص کئی مقام پر فرمائی ہے۔ فرضیت جمعہ کے لیے علی العموم سورت جمعہ کی آیت سے استدلال فرمایا گیا ہے۔ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ﴾ (الجمعة:9) غلام، مسافر، عورت وغیرہ کا استثنا خبر واحد ہی سے عمل میں آیا ہے۔ مگر دیہات کو
[1] ۔ صحيح مسلم، رقم الحديث(1452)