کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 107
ان تمام آیات میں نکاح کا فاعل مردوں کو قرار دیا گیا ہے۔ فاعلیت سے حصر پر استدلال کیا جائے تو قرآن میں تعارض ہوگا۔ کہیں عورت کو مختار مطلق بنایا گیا ہے، کہیں مرد کو۔ نکاح میں دو گواہ معاملے کے لحاظ سے بھی ضروری ہیں اور حدیث میں اس کی صراحت بھی موجود ہے۔ [1]﴿حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾کی تخصیص حدیث شہادت پر بھی اثر انداز ہونی چاہیے یا پھر ولی پر بھی اثر انداز نہیں ہونی چاہیے۔ پھر بالغہ کو تو اس آیت کی بنا پر مختار سمجھا گیا، لیکن نابالغہ کو اس قدر بے بس کردیا گیا کہ اس میں باپ اور دادا کی ولایت کو جبری قرار دیا اور اس بچاری مسکینہ سے خیار بلوغ کا حق بھی چھین لیا گیا حالانکہ آیت میں بالغہ اور نابالغہ کی نہ تخصیص ہے نہ شرط۔ ایک اصل کی حمایت نے قرآن وسنت دونوں سے تعلق دھیلا کر دیا۔ اگر آیت میں عورت کو خصوصیت سے نکاح کا اختیار دیا گیا ہے تو نابالغہ کے استثناء کے لئے کونسی آیت آئی ہے۔ بلا وجہ ترجیح کے لئے کوئی معقول وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ صاحب فصول الحواشی بڑی متانت سے فرماتے ہیں: ((ونحن تركنا الخبر الواحد بمقابلة الخاص من الكتاب))( ص: 26) ’’ہم نے قرآن حکیم کے خاص حکم کے بالمقابل خبر واحد (حدیث اشتراط ولی) کو چھوڑ دیا۔‘‘ اور نابالغہ کے متعلق پھر اسی خبر واحد سے استفادہ فرما لیا گیا اور مرد کے قبول کو بھی مان لیا گیا۔ حلانکہ آیت تنكح میں مرد کی قبولیت کا بھی ذکر نہیں۔ اسی طرح گواہوں کی ضرورت بھی مان لی گئی حالانکہ آیت میں شہود کا بھی کوئی تذکرہ نہ تھا۔ اس آیت کا مقصد گویا فقط ولی کی ضرورت کو توڑنا تھا اور بس۔ شاہ صاحب اس صورتحال پر کیسے مطمئن ہو سکتے تھے۔ جہاں اصول کا یہ حال ہو وہاں فروع تو بہرحال اس پر متفرع ہوں گی۔
[1] ۔ صحيح سنن الدارقطني(3/224) صحيح ابن حبان (4075)