کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 106
”جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل (تین بار)ہے۔ “ اس حدیث سے ولی کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے، مگر آیت کے مقابل یہ حدیث قابل قبول نہیں، آیت اس تشریح کی محتاج نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ نکاح کے انعقاد میں چار شخصیتوں کو دخل ہے۔ ناکح، منکوحہ، ولی، گواہ۔ لیکن حصر کی کوئی دلیل نہیں۔ ان چاروں سے کوئی بھی دوسرے سے مستغنی نہیں کر سکتا۔ اپنے اپنے فرائض کے لحاظ سے سب پر ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اگر((تَنْكِح))کی نسبت فاعلی کا اثر ولی پر پڑسکتا ہے تو ناکح اور شاہدین پر بھی پڑنا چاہیے۔ عورت کو اس استدلال کے مطابق نکاح میں مختار مطلق ہونا چاہیے، نہ خاوند کی رضا کی ضرورت ہوگی نہ گواہ کی۔ حالانکہ قرآن عزیز میں نکاح کا فاعل کئی جگہ مردوں کو قراردیاگیا: ﴿:فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ﴾ (النساء: 3)) ”(اور)عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو، دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے۔ “ ﴿اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ ﴾ (الاحزاب: 49)) ”جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو، پھر انھیں طلاق دے دو۔ “ ﴿ وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ﴾ (البقرہ: 221)) ”مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ “ ﴿ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ﴾ (الممتحنہ: 10)) ”اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ ان سے نکاح کر لو، جب انھیں ان کے مہر دے دو۔ “ ﴿فَانْكِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِهِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ﴾ (النساء: 25) ”تو ان سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کر لو اور انھیں ان کے مہر اچھے طریقے سے دو۔ “