کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 105
کوئی طریق صحیح ثابت نہیں ہو سکا۔ اگر قراءت کے حکم سےمقتدی مستثنیٰ ہو سکتا ہے تو فاتحہ کا تعین بھی ہو سکتا تھا۔ اگر حدیث اپنے مسلک کی مؤید ہو تو اس سے قرآن کے مفہوم کی تعیین ہو سکتی ہے، اگر وہ کسی دوسرے مسلک کے لیے مفید ہو تو اس سے قرآن عزیز کے احترام کو نقصان پہنچتا ہے!یہ طریق بحث و نظر درست نہیں۔
پانچویں مثالی:
﴿فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ﴾ (البقرة:230)
یعنی تیسری طلاق کے بعد عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہو سکتی، جب تک کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کر لے۔
آیت میں ((تَنكِحَ))کا فاعل ضمیر مؤنث ہے، جو عورت سے تعبیر ہے، گویا نکاح ثانی کی ذمےداری بلحاظ فاعل عورت پر رکھی گئی ہے، جب تک وہ دوسرا نکاح نہ کرے، تین طلقات کے بعد وہ پہلے خاوند کی طرف رجوع نہیں کر سکتی۔
فقہائے حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے خاص سمجھ کر اس سے حصر کا فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ بالغہ عورت نکاح کے معاملے میں مختار ہے، اسے ولی کی ضرورت نہیں، بالغہ ہونے کی صورت میں وہ جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ ولی اسے پابند نہیں کر سکتا اور حدیث : ((أيما امرأةٍ نُكحتْ بغيرِ إذنِ وليِّها ؛ فنكاحُها باطلٌ، باطلٌ، باطلٌ)) [1] [2]
[1] جزء القراءة خلف الامام للبخاري، ص :90)نیز اسی طرح دیگر ایمہ حدیث اور حفاظ کرام نے اس حدیث کو ضعیف و معلول قرار دیا ہے،
تفصیل کے لیے دیکھیں: ارواء الغليل (2/267) تحفة الانام (ص89)
1۔ صحيح سنن ابي داود رقم الحديث(2083) سنن الترمذي، رقم الحديث(1102) سنن ابن ماجه رقم الحديث(1879)اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن اور امام حاکم، ابن حبان اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح کہا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: التلخيص الجير (3/156) ارواء الغليل(6/243)
[2]