کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 104
چوتھی مثال: 4۔ قرآن عزیز میں ارشاد ہے: ﴿فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ (المزمل:20) سورت مزمل میں رات کی نماز کا ذکر فرماتے ہوئے حکم فرمایا کہ تہجد میں قرآن کا جس قدر حصہ آسانی سے پڑھا جا سکے، ضرورپڑھو۔ احادیث سے ظاہر ہوتا کہ((ما تَيَسَّرَ ))سے مراد سورت فاتحہ ہے۔ جس طرح حدیث ((ما تَيَسَّرَ ))کا لفظ وارد ہوا ہے اسی طرح اس حدیث کے دوسرے طرق میں((ما تَيَسَّرَ ))کی وضاحت ((اُم القرآن)) سے کی گئی ہے۔ [1]گویا جو تذکرہ قرآن عزیز میں ((ما تَيَسَّرَ ))کے لفظ سے ہوا تھا، اسی کا دوسرا نام یا اس کی وضاحت ((اُم القرآن)) سے فرمائی گئی ہے، اس لیے آپ امام ہوں یا مقتدی یا منفرد، آپ کو سورۃ فاتحہ ضرور پڑھنی چاہیے۔ ((جزء القراءة للبيهقي، ص:403) فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کا خیال ہے فاتحہ کا تعیین درست نہیں، چونکہ (( القرآن)) کا لفظ خاص ہے، اسے مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ اس لیے فرض صرف قرآن ہوگا اور احادیث کی وضاحت قبول نہیں نہ وہگی۔ لیکن یہ پابندی قائم نہ رہ سکی۔ ﴿فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾میں قراءت کی مقدار کا تعین بقدر ایک آیت یا تین آیت قیاس سے کیا گیا۔ پھر ((فَاقْرَؤُا))میں امام مقتدی منفرد سب شامل تھے، اسی سے مقتدی کو حدیث ((مَن كانَ له إمامٌ فقراءةُ الإمامِ له قراءة))[2]سے مستثنیٰ قرار دیا گیا، حالانکہ یہ حدیث بھی باتفاق ائمہ ضعیف ہے، اس کا
[1] ۔ صحيح سنن ابي داؤد، رقم الحديث(859)مسند احمد(4/240)اس حدیث کو امام ابن رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن کہا ہے۔ [2] ۔ ضعيف سنن ابن ماجه(850)مسند احمد/339)سنن دارقطني(1/323)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں هذاخبر لم بثبت عند اهل العلم من اهل اللحجاز واهل العراق وغيرهم لارساله وانقطاعه ) تحفة الانام في تخريج