کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 103
ہیں۔ وہ رائے کے دروازوں کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں، سنت کے ابواب بند ہوتے ہیں تو ہو لیں۔ اس لیے حضرت شاہ ولی اللہ جیسا بیدار مغز، معاملہ فہم دور اندیش، تجدیدی ذہن رکھنے والا آدمی پورے ماحول کی اس نا مناسب کیفیت پر کیسے مطمئن ہو سکتا تھا؟
شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اصول فقہ کے ان نظریات پر اپنی تصانیف میں جابجا تنقید فرمائی اور یہی تنقید اس وقت ان ذہین لوگوں کے سامنے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے جو اہل حدیث یا سلفی کہلاتے ہیں۔
اس تحریک کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ ائمہ کی مساعی بے کار ہیں یا ان کے علوم سے استفادہ ناجائز ہے یا ان کے علوم اور اجتہادات پر تنقید زندگی کا کوئی اہم اور ضروری مشغلہ ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کے اجتہادات اور جملہ مسائل کی حیثیت ایک علمی تحقیق یا مقدس محنت کی ہے، ان کا مقام علوم نبوت کا مقام نہیں، جس طرح ان سے استفادہ اور ان کے سامنے انقیاد بشرط صحت درست ہے، اسی طرح کتاب و سنت کی روشنی میں ان پر تنقید بھی درست ہے اور ان سے صرف نظر بھی کیا جا سکتا ہے۔
تحقیق کی راہیں جس طرح ان کے لیے کھلی ہیں، ان کے اتباع اور تلامذہ کو بھی اجازت ہے کہ علم و نظر کی راہنمائی میں کتاب و سنت کی نصوص پر غور کریں اور مصالح وقت کے لحاظ سے ان پر عمل کریں۔ گویہ تحقیق ان کی تحقیق سے مختلف بھی ہو جائے۔ تحقیق ونظر کے لیے علوم اور خلوص نیت کے بعد ضروری نہیں کہ مصطلح اجتہاد اور اس کےمفروضہ علوم بھی زیر نظر ہوں۔ یہ اصطلاح زمانہ نبوت میں اس مفہوم سے موجود نہ تھی، اور یہ علوم اجتہاد بھی زمانہ نبوت سے صدیوں بعد موجود ہوئے۔ ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ نے بھی یہ تمام علوم نہ پڑھے، بلکہ اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ اس مصنوعی جال سے ہرایک کو شکار کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ علم کو علم ہی کی راہ سے منوایا جائے، اسے فتویٰ یا حکومت یا اکثریت کے دباؤ سے نہ منوایا جائے۔