کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 102
بیان پر مرتب نہ ہو۔ فرمایا: ﴿فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ 0 ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾ (القيامة: 18 ،19) ”تم ہمارے ارشاد کے مطابق قرآن کو پڑھو، پھر اس کا بیان ہمارے ذمے ہے۔ “ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حکم کے مطابق احکام کی وضاحت فرمائیں، لیکن وہ بیان ہمارے خود ساختہ اصول کے ہم پلہ نہ ہو سکے، حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ عجیب تھا۔ اس لیے ”حجة الله“ ”الخير الكثير “ ”تفهيمات“ ”مصفي“ ”مسويٰ“عقد الجيد“ ”الانصاف“وغیرہ میں اسے بار بار دہرایا اور مختلف طرق سے اس فقہی جمود کو توڑنے کی کوشش فرمائی اور احتجاج فرمایا کہ سنت کے ساتھ یہ بے انصافی اور ترجیحی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ بڑا ہی نا مناسب ہے کہ غیر معصوم انسانوں کے بنائے ہوئے اصول تو دین کی اساس قرار پائیں اور سنت، جوفی الحقیقت وحی اور دین کی بنیاد ہے، وہ ان مصنوعی اصول کے سامنے یتیم اور لاوارث قرار پائے، اور سنت سے ایسا سلوک وہ لوگ کریں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں! حدیث کی صحت: حدیث کی صحت یا ضعف کا مسئلہ اس وقت خارج ازبحث ہے، اس لیے کہ ان اصول کی حکومت کے سامنے حدیث، صحیح ہو یا ضعیف، بے بس ہے، ویسے تو ہمیں بتایا گیا ہے کہ حدیث ضعیف بھی ہو تو وہ قیاس سے مقدم ہے، اور اس کے لیے اصول فقہ کے دفاتر میں حدیث قہقہہ[1]کے انداز کی شاید ایک دو مثالیں بھی مل جائیں۔ دراصل حضرات فقہائے عراق، خصوصاً اتباع قاضی عیسیٰ بن ابان، سنت سے ویسے ہی کچھ ناراض
[1] ۔ اس سے مراد وہ حدیث ہے کہ جس شخص نے نماز میں قہقہہ لگایا تو وہ وضو اور نماز کو دہرائے۔ اس معنی کی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے، جیسا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں۔ سنن الدارقطني (6459) نصب الرايه(1/47) ارواء الغليل(2/117)