کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 101
”اور ہم نے آپ پر یہ کتاب صرف اس لیے اتاری کہ آپ اس کے باہم اختلافات کو واضح فرمائیں اور یہ کتاب اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ “
ان دونوں آیات میں تبیین اور اظہار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمے داری قرارپایا ہے، جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی طرح بھی صرف نظر نہیں فرما سکتے۔
3۔ سورت مائدہ میں اہل کتاب کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی طرف دعوت دی:
﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ﴾ (المائدة: 15)
”اے اہل کتاب !تمھارے پاس ہمارے رسول اس لیے تشریف لائے کہ وہ تمھاری چھیائی ہوئی چیزوں کی وضاحت فرمائیں۔ “
تعجب ہے کہ جس بیان کے سامنے اہل کتاب کو بھی انقیاد کی دعوت دی جارہی ہے، مسلمان ان سے محروم ہونے کی اس لیے کوشش فرماتے ہیں کہ ارباب اعتزال کےطے فرمودہ قوانین کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ حدیث رہے یا نہ رہے، اصول اور ان کی پختگی میں کمی نہ آنے پائے!!
4۔ پھر یہ ذمے داری تمام انبیاء علیہم السلام پر ڈالی گئی:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾(ابراهيم:4)
”ہم نے نبی کو اس کی مادری زبان میں اس لیے مخاطب فرمایا کہ وہ پوری وضاحت کر سکے، پھر ہدایت اور گمراہی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ عزیز اور حکیم ہے۔ “
5۔ پھر پیغمبر کے اس بیان کو اپنا بیان قرار دیا، تاکہ خالق اور مخلوق کی مغایرت کا اثر