کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 100
جو نسخ کے مترادف ہے۔ جب قرآن عزیز نے خاص الفاظ سے ایک حقیقت کا اظہار فرما دیا، اس پر زیادتی کسی طرح درست نہیں۔ ایسا کرنا یا سمجھنا قرآن عزیز کی عظمت اور اس کی رفعت شان کے منافی ہے۔ قرآن کی عظمت واقعی ضروری ہے، لیکن اس آڑ میں مقام نبوت کا تعطل ہو جائے پیغمبر کو یہ بھی حق نہ رہے کہ وہ قرآن عزیز کے مفہوم کی تعیین فرمائیں، کسی عمل کی شرعی ہئیت کا اظہار یا کوئی ایسا حکم جس سے قرآن عزیز نے سکوت فرمایاہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے بیان نہ فرما سکیں، خود صاحب وحی بھی اپنی وحی کا مطلب بیان نہ فرما سکیں، مجتہد اور فقیہ، عالم اور صوفی تو اپنے خیال سے اپنی استعداد کے مطابق قرآن کا مطلب بیان فرما لیں، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا جائے کہ آپ قرآن کے متعلق کچھ نہیں فرما سکتے، یہ عجیب ہے۔ !! آخر یہ اُصول بھی تو قرآن فہمی ہی کے لیے بنائے گئے اور ان کے بنانے میں بقول صاحب کشف الظنون(ص:89)زیادہ کوشش معتزلہ اور اہل حدیث نے کی۔ ان کا احترام تو اس قدر رکھا کہ حدیث بھی ان کے ہوتے ہوئے نظر انداز فرمادی گئی اور نصوص نبویہ کے لیے یہ گنجائش بھی نہ رکھی گئی کہ وہ قرآن عزیز کی وضاحت فرماسکیں، حالانکہ قرآن عزیز یہ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ذمے داری کے طور پر متعین فرماتا ہے: ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾ (النحل:44) ”ہم نے ذکر تم پر اس لیے اتارا کہ آپ لوگوں کے سامنے اسے واضح فرمائیں اور یہ لوگ اسی پر سوچیں۔ “ ﴿وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (النحل:64)