کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 88
بلکہ ان کے تحقیقی ارشادات پر غور فرمائیے تو اپنے مخالفین کے خلاف بعض اوقاعت خاصا تشدد نظر آئے گا اس کے باوجود حدیث کے خادم ہیں۔
اہل حدیث مکتب فکر:
لیکن اہل حدیث مکتب فکر اس سے بالکل مختلف ہے یہ وہ جماعت ہے جو اپنے افکار میں ان شخصی پابندیوں سے آزاد ہے وہ مجتہد ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ شخصی اجتہادات کے پابند نہیں بلکہ ان بزرگوں کےلیے مواد اور دلائل فراہم فرماتے ہیں۔ خود بھی پیش آمدہ مسائل پر کتاب اللہ اور سنت اور ائمہ سلف کے ارشادات کی روشنی میں غور فرماتے یہں۔ ائمہ اربعہ کے اجتہادات سے موافقت یا مخالفت اس کےلیےوہ چنداں فکر مند نہیں ہوتے بلکہ ان کی نظر مصالح پر ہوتی ہے۔
شاہ صاحب نے حجۃ اللہ میں ایک باب کا عنوان ہی یہ رکھا ہے:
باب الفرق بين أهل حديث وأهل الرأي
عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مکتب فکر کا تذکرہ ہو گا۔
پھر اہل حدیث کےچند اصول [1]ذکر فرمانے کے بعد لکھتے ہیں:
فان عجزوا عن ذلك أيضا تاملوا في عمومات الكتاب والسنة وايماءاتها واتقضاءاتها وجملوا نظير المسئلة عليها في الجواب إذا كانتا متقاربتين بادي الرأي لا يتعمدون في ذلك على قواعد من الأصول ولكن على ما يخلص إلى الفهم ويثلج به الصدر كما أنه ليس ميزان المتواترعدد الرواة ولاحالهم
اگر سابقہ اصولوں کے مطابق مسئلہ نہ ہو سکے تو کتاب وسنت کے ارشادات و اقتضادات کو دیکھتے ہیں۔ اور پیش آمدہ مسئلہ کے نظایر اور ان کے حکم پر غور کرتے ہیں اور جواب تلاش کرتے ہیں۔ جب وہ نظائر صراحۃ متقارب ہوں تو اصول فقہ کے قواعد کے چنداں ملحوظ نہیں رکھتے بلکہ قلبی سکون اور طمانیت کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ جیسے تواتر میں
[1] ان اصول کا ذکر شروع میں آچکا ہے ۔ جماعت اسلامی اور اس کے ہمدد حضرات نے گزشتہ ایام میں اس مغاطلہ کی کافی اشاعت فرمائی تھی، ممکن ہے جماعت کے لیے یہ مغالطہ مفید ہو، علمی اور تحقیقی طور پر قطعاً غلط ہے تاریخی شواہد اس کے خلاف ہیں۔