کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 87
اربعہ کے علاوہ فقہاء محدثین کی راہ کو بھی ان کے ساتھ ملا کر ملک میں ایک ایسے فقہی مکتب فکر کی بنیاد رکھی جائے جس میں نہ حافظ ابن حزم کی ظاہریت ہو جس سے نصوص میں بھدا پن پیدا ہو۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی فصاحت وبلاغت اور حسن ادا نظر انداز ہوجائے۔ اور نہ ہی قیاس اور رائے اس قدر اہمیت حاصل ہو کہ قوت فیصلہ علماء کی موشگافیوں اور حیل آفرینیوں کے ہاتھ میں چلی جائے۔ اور نصوص شرعیہ اس حیران کن منظر میں صرف تماشائی ہو کر رہ جائیں۔ جیسے متاخرین فقہا نے فرضی صورتوں سے دین کا نیا محل تعمیر فرما دیا (قاضی خان، شامی، الاشباہ والنظائر ان کے سامنے ان علوم کی اور ہمہ گیر تعلیمات سے انگشت بدنداں ہو کر رہ گئیں) ایک بہت بڑا مغالطہ اور اہل حدیث کچھ مدت سے عوام میں ایک مغالطہ کی اشاعت ہورہی ہے اور اچھے سنجیدہ اور پڑھے لکھے حضرات کو اس میں مبتلا پایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ: اہل حدیث کوئی مکتبِ فکر نہیں۔ بلکہ حفاظ حدیث اور اس فن کے ماہرین کو اہل حدیث کا نام دیا گیا ہے۔ اس مغالطہ کی حمایت ہمارے ملک کی بعض تحریکات نے بھی کی ہے اور بعض کم سواد حضرات نے بھی اپنی تحریروں میں اس خیال کا اظہار فرمایا۔ اس کے دو ہی سبب ہیں۔ قلتِ مطالعہ یا پھر تعصّب کے ساتھ سیاہ دلی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فن حدیث اور اس کے حفظ وضبط کا دل پسند مشغلہ مذاہب اربعہ میں رہا ہے اور ان مکاتب فکر کے علمائے فن حدیث اور اس کے خوادم فن رجال اصول حدیث وغیرہ کی خدمت کی۔ لیکن یہ حضرات اس خدمت کے باوجود فہم حدیث کے معاملہ میں اپنے پیش رو امام ہی کے انداز سے سوچتے ہیں۔ جیسے حافظ طحاوی، علامہ ترکمانی، حافظ بیہقی، حافظ بدر الدین عینی، حافظ ابن حجر عسقلانی، یہ حضرات حدیث کی بہترین خدمت کے باوجود طریقِ فکر کے لحاظ سے یا حنفی ہیں یا شافعی۔ اسی طرح موالک اور حنابلہ میں بھی ایسے خدام حدیث موجود ہیں جو فکر کے لحاظ سے مالکیت یا حنبلیت کے پابند ہیں۔ وہ احادیث کے مفہوم کو سوچتے وقت اپنے ائمہ کی حدود فکر سے آگے نہ بڑھ سکے۔