کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 82
وأشهد لله بالله أنه كفر بالله أن يعتقد في رجل من الأمة ممن يخطي ويصيب أن الله كتب على اتباعه حتما وأن الواجب علىه هو الذي يوجبه هذا الرجل على ولكن الشريعة الحقة قد ثبت قبل هذا الرجل بزمان قد وعاها العلماء وأداها الرواة وحكم بها الفقهاء وإنما اتفاق الناس على تقليل العلماء على معنى أنهم رواة الشريعة عن النبي صلى الله عليه وسلم وأنهم علموا ما لم نعلم وأنهم اشتغلوا بالعلم ما لم نشتغل فلذلك قلدوا العلماء فلو أن حديثا صح وشهد لصحتها المحدثون وعمل به طوائف وظهر فيه الأمر ثم لم يعمل به هؤلاء لأن متبوعه لم يقل به فهذا هو الضلال البعيد. اھ (تفہیمات ج1 ص211)
میں اللہ کے لئے اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ امت میں کسی ایسے آدمی کے متعلق جو غلطی بھی کرتا ہو اور صحیح بن کہتا ہو یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کی اطاعت ضروری ہے اور جسے وہ واجب کہے اسے واجب سمجھنا ضروری ہے یہ قطعاً کفر ہے۔ کیونکہ شریعت اس شخص سے مدتوں پہلے سے موجود ہے۔ علماء نے اسے حفظ اور ضبط کیا اور رواۃ نے اسے بیان کیا۔ فقہاء نے اس کے مطابق فیصلے فرمائے۔ لوگوں نے علماء کی تقلید کو صرف اس لئے متفقہ طور پر قبول کیا کہ وہ در حقیقت شریعت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں۔ اور علم اس کا مشغلہ ہے اور وہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ لیکن اگر حدیث صحیح ہو۔ محدثین اس کی صحت کے شاہد ہوں۔ عامۃ المسلمین نے اس پر عمل کیا ہو۔ معاملہ واضح ہو چکا ہو پھر اس پر صرف اس لئے عمل نہ کیا جائے کہ امام یا متبوع نے اس کے مطابق فتویٰ نہیں دیا یہ بہت بڑی گمراہی ہے۔
شاہ صاحب کا ارشاد کسی حاشیہ آرائی کا محتاج نہیں۔ وہ تقلید کے صرف اس حد تک قائل ہیں کہ اہل علم کتاب وسنت سے روایت کرتے ہیں۔ علمی مشاغل کی وجہ سے ان کی معلومات زیادہ ہیں۔ عوام ان کی معلومات سے استفادہ کر سکیں۔ صحیح حدیث کا علم جب صحیح ذرائع سے پہنچ جائے تو علماء کے ساتھ تقلیدی وابستگی کا تعلق یکسر ختم ہوجائے گا اور حدیث صحیح کے ہوتے ہوئے کسی عالم کے لئے تعصب یا اس