کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 56
میں نے اس مقام پر ذہبی کے تاثرات کو اس لئے ذرا تفصیل سے لکھا ہے کہ ذہبی مختلف مکاتب فکر میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی نظر تاریخی لفظ سے اور رجال میں بہت وسیع ہے۔ بحرم العلوم مسلم الثبوت کی شروح میں ذہبی کے متعلق فرماتے ہیں: قال الذهبي هو من أهل الاستقراء التام في نقل حال الرجال (بحر العلوم ص441) ذہبی کا استقراء اسماء الرجال میں بہت کامل ہے۔ ذہبی نے فکر کے جمود اور تقلید کے متعلق ان ممالک کا حال لکھا ہے جو ارض حرم کے قریب اور دینی علوم کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندوستان جیسا ملک جو علومِ نبوت سے پہلے ہی کافی دور ہے، جہاں محققین کی پہلے ہی کمی ہے یہاں کے حالات تو اور بھی خراب ہوں گے۔ عزالی فرماتے ہیں: فإن خاص المقلد في الحاجة فذلك منه فضول واشتغل به صار كضارب في الحديد بارد وطالب لصلاح الفاسد وهل يصلح العطار ما أفسد الدهر مقلد کے ساتھ بحث ٹھنڈا لوٹا کوٹنے کے مرادف ہے۔ عطار وقت کی بگڑی کو نہیں بنا سکتا۔ ہندوستان میں اسلام معلوم ہے کہ ہندوستان میں فاتحین اسلام دو راستوں سے آئے۔ سندھ کی راہ سے اور ایران کی راہ سے۔ پہلا لشکر محمد بن قاسم کی قیادت میں پہلی صدی کے اواخر[1] میں پہنچا۔ اس وقت ائمہ اربعہ سے امام حنیفہ رحمہ اللہ کے سوا باقی ائمہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ حضرت ابو حنیفہ کے لئے یہ دور طالب علمی کا تھا اور امامت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
[1]  ہندوستان میں پہلا حملہ 92ھ میں ہوا۔ اس وقت ولید بن عبد الملک خلیفہ تھے۔ حجاج بن یوسف گورنر اور محمد بن قاسم قائد جیوش۔ محمد بن قاسم کے یہ حملے 95ھ تک جاری رہے۔ ملتان سے قنوج تک ان کی فوجیں پہنچیں۔ دوسرا حملہ چوتھی صدی ہجری میں سلطان محمود غزنوی نے کیا۔ اس وقت مذاہب اربعہ کا رواج کسی قدر ہوچکا تھا۔ غزنویوں کے بعد حکومت غوریوں کی طرف منتقل ہوکئی۔