کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 29
تصور سے خشوع زیادہ مجروح ہوتا ہے۔ صراط مستقیم
عنوان یا تعبیر کچھ ہو بات صحیح اور درست تھی کہ محبوب اور پسندیدہ چیز کے تصور سے طبیعت کے رجحان اور خشوع پر زیادہ اثر پڑے گا۔ گاؤخر ایسی معمولی اور حقیر چیز کے تصور سے نماز اور خشوع پر وہ اثر نہیں پڑے گا۔ بات پتے کی تھی۔ آنحضرت کے ساتھ محبت اور والہانہ تعلق جب توحید کی سرمستیوں سے ٹکرائے تو اس سے بچنا بڑی دانشمندی ہے۔ نہ تو نوبت کی بلندیوں کو گاؤخر کی حقارتوں سے ہم آہنگ ہونے دیا جائے نہ ہی نماز کے معراج اور اس مکالمہ الٰہیہ کے ذوق میں کسی دوسرے محبوب کو اشتراک کا موقع دیا جائے۔
مسئلہ درست تھا اگر تعبیر نا پسند تھی تو اسے بدل دیا جاتا۔ مولانا عبد الحی بڈہانوی کا ترجمہ وحی نہیں تھا لیکن یہاں کوئی پرانا بغض تھا جسے نکالنا ضروری سمجھا گیا۔ سید احمد کا ارشاد اور مولانا عبد الحی بڈہانوی کا ترجمہ دونوں شاہ اسمٰعیل شہید کے نام لگا دئیے گئے اور فتووں کی مشین تان دی گئی اور کفر کے انبار بالا کوٹ کے میدان میں دریائے منہار کے کناروں پر انڈیل دئیے گئے۔ جنہیں خون شہادت کے چند قطروں نے دریائے منہار کی لہروں کے سپرد کر دیا اور شہداء کی طہارت ان نجس اور غلیظ فتوں سے متاثر نہ ہوسکی۔
سراسیمگی اور شوریدہ سری کی کوئی حد ہے کہ سید شہید کے ملفوظات اور مولانا عبد الحی کا ترجمہ دونوں بیچارے شاہ اسمٰعیل کے نام الاٹ کر دئیے گئے۔ اور درس وافتاء کی مسندیں شہید حق کے کیڑے نکالنے میں مشغول ہوگئیں جو ان کے درجات کی رفعت کا موجب ہوں گے ان شاء اللہ!
سید شہید نے نماز کی سرگوشیوں میں آنحضرت کے مقام کی رفعت اور گاؤخر کی حقارت انگیزیوں میں اگر امتیاز فرما نماز کی روحانی کیفیتوں کو شرک کی غلاظتوں سے پاک وصاف رکھنے کی تلقین فرمائی تو وہ کافر ہوئے اس لئے کہ وہ آنحضرت سے محبت فرماتے ہیں۔ آپ کی فقہی موشگافیوں نے حریم نماز میں مصحف کے تقدس کو شرمگاہ کی عریانی اور انسانی کمزوریوں کے جنشی شہوت سے قڑآن عزیز کو شکست دے دی آپ کا ایمان سلامت رہا اور آپ بالکل تازے اہل سنت وجماعت ہوگئے اور شہدائے بالا کوٹ شہادت اور قربانی کے باوجود کافر ہی رہے۔ ع
من كان هذا القدر مبلغ علمه
فليستتر بالصمت والكتمان