کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 27
آگے بڑھنے سے پہلے اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرما لیجئے: صحیح بخاری میں ہے: كانت عائشة يؤمها عبدها ذكوان عن المصحف (ج2 ص756 عمدۃ القاری، فتح الباری طبع ہند ج1 ص386) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا غلام ذکوان قرآن سے دیکھ کر نماز پڑھاتا تھا۔ ابن سیرین، حسن بصری، حکم، عطا قرآن سے نماز میں قراءت جائز سمجھتے تھے۔ حضرت انس کے پیچھے سامع کے ہاتھ میں قرآن ہوتا۔ وہ انہیں لقمہ دیتے۔ امام مالک تراویح میں اسے جائز سمجھتے ہیں۔ حافظ عینی فرماتے ہیں: قلت القراءة من مصحف في الصلوة مفسدة عند أبي حنيفة لأنه عمل كثير وعند أبي يوسف ومحمد يجوز لأن النظر في المصحف عبادة لكنه يكره لما فيه من التشبه بأهل الكتاب. اھ عمدۃ القاری ج2 ص757 نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے سے حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک نماز فاسد ہوگی کیونکہ یہ عمل کثیر ہے (جس سے خشوع اور نماز کی ہیئت بگڑ جاتی ہے۔) امام ابو یوسف اور امام محمد فرماتے ہیں۔ قرآن دیکھنا عبادت ہے، اس لئے نماز درست ہے لیکن مکروہ ہوگی اس میں اہل کتاب سے مشابہت ہے وہ کتاب سے دیکھ کر ہی نماز پڑھتے ہیں۔ إمام قرأ في المصحف فصلوته فاسدة قال أبو يوسف ومحمد تامة ويكره. اھ. جامع الصغیر امام محمد ص15 طبع مصر حضرت امام کے نزدیک قرآن دیکھ کر پڑھنے سے نماز فاسد ہوگی۔ امام محمد اور ابو یوسف کے نزدیک ہوگی لیکن مکروہ حضرت عائشہ اور اکابر تابعین کے عمل کے باوجوہ دل مانتا ہے کہ مصحف میں پڑھنا ٹھیک نہیں۔ یہ واقعی عمل کثیر ہے (عمل کثیر کی حد کچھ ہو۔) اوراق کی الٹ پلٹ اور صفحات کی طرف توجہ اور حفاظت سے واقعی نماز کی طرف صحیح اور مناسب توجہ نہیں رہے گی۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے یہ تکلف نہ کیا جائے اور حفظ سے پڑھا جائے۔