کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 26
دلائل کے تذکرہ میں عقل لب اور نُہیٰ کے استعمال کی تلقین کی گئی ہے تو پھر اسے معطل کیوں چھوڑا جائے
﴿فَبَشِّرْ عِبَادِ 17ۙالَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ 18﴾ الزمر
وہ لوگ بشارت کے مستحق ہیں جو گفتگو سن کر اس کے حسن وقبح میں تمیز کرتے ہیں اچھی باتوں کو قبول کرتے ہیں یہی لوگ اللہ سے ہدایت کے مستحق ہیں اور یہی عقلمند کہلانے کے حق دار۔
اس میں عقل مند اور معاملہ فہم لوگوں کی تعریف فرمائی گئی ہے۔ ملتے جلتے مسائل کے حکم میں توزان قیاس صحیح کا نتیجہ اور عقل کا واجبی تقاضا ہے۔
الله الذي أنزل الكتاب بالحق الميزان
اللہ نے کتاب کو حق کے ساتھ اتارا اور اس کے ساتھ میزان کو بھی اتارا۔
جس میزان کا تعلق کتاب کے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اتری ہے۔ یہ ترازو وہ نہیں جو مادی اور جسمانی چیزوں میں توازن کیلئے بنائی گئی ہے اس سے مراد وہی میزان ہے جو کتاب کے فہم اور ادلہ شرعیہ میں جس سے بصیرت ہوتی ہے جس سے مختلف نظائر کے حکم میں توازن ہوتا ہے اس کا فقہی اور اصطلاحی نام قیاس سمجھ لینا چاہئے لیکن حقیقت میں وہ میزان ہے۔
اس لئے نہ قیاس کی ضرورت سے انکار کیا جا سکتا ہے نہ ہی اپنے مقام پر اس کی حجیت اور افادیت کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ ائمہ حدیث ظواہر حدیث کے ساتھ پوری عقیدت، الفاظ اور ان کے لغوی معانی کے ساتھ پورے اعتناء کے باوجود قیاس کو شرعی حجت سمجھتے ہیں اور ان قیاسی ادلہ سے پوری طرح استفادہ کے قائل ہیں۔ ان اصول کے احتواء اور ممکن عموم اور ہمہ گیری کے معترف ہیں لیکن نصوص شرعیہ کو ان اصول پر قربان نہیں کرتے جس کی بعض مثالیں ان گزارشات میں مذکور ہو رہی ہیں۔ عام فقہاء اور خصوصاً فقہاء حنفیہ سے اس معاملہ میں کچھ مسامحات ہوئی ہیں رحمہم اللہ۔ شاہ صاحب کی اصل بے چینی یہی ہے۔ بعض جگہ اصول نصوص سے ٹکرا گئے ہیں اور بعض جگہ اصول کی جامعیت اور اس کے طرد وعکس میں خلل واقع ہوا ہے۔ جہاں اصول کی جامعیت نے دل کی گہرائیوں میں جگہ لی اور نظائر کو اس پیمانہ سے ناپنا شرع کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پیمانہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔ نظائر کا حکم باہم ٹکرا گیا۔ اور اصول پاش پاش ہوگیا۔