کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 25
ہوں جس شخص نے اسرار شریعت اور دین کی حکمتوں میں رازی اور غزالی سے سبقت حاصل فرمائی۔ ابن حزم اور عز بن عبد السلام ایسے فحول ائمہ پر تنقیدی تبصرے کیے ہوں۔ وہ توضیح اور کشف الاسرار پر کیسے مطمئن ہو سکتا تھا۔ اصول فقہ اور فقہ کے متعارض اور متصادم اصول جزئیات ایسے کیسے مطمئن کر سکتے تھے۔
ظاہر پرستی کا مرض
حافظ ابن حزم ابن امام داؤد ظاہری رحمہم اللہ نے قیاس کی ان بھول بھلیوں سے تنگ آکر اس کی حجیت سے انکار کر دیا اور اسی تلاش میں نکلے کہ صرف کتاب وسنت پر کفایت کریں۔
یہ راستہ اس لحاظ سے بے خطر تھا کہ اس میں اپنی ذمہ داریاں کم ہو جاتی ہیں۔ تاویلات اور قیاسات کی دوڑ دھوپ سے تھکنے یا ہار جانے کی نوبت نہیں آتی۔ جب دین میں مدار نقل پر ہے تو نقل پر انسان کو مطمئن ہوجانا چاہئے اگر عقل بالفرض قاصر ہے تو حرج نہیں۔ اصل تو نقل ہی ہے۔ جب قرآن وسنت میں ایک حکم مل گیا تو اب عقل اور نظائر کی تلاش چنداں ضروری نہ تھی۔ نہ ہی عقل کی موافقت کی شرط۔ اس لئے اپنی طرف سے نہ کسی اضافہ کی ضرورت ہے نہ ہی اس خطرے کو خریدنے میں کوئی فائدہ۔
لیکن معلوم ہے کہ نصوص کا ذخیرہ محدود ہے۔ سنن ثابتہ چند ہزار کے پس وپیش ہوں گی اور قرآن عزیز کی ایک سو چودہ سورتیں آیات احکام کی تعداد معمولی ہے لیکن حوادث کا سلسلہ غیر محدود ہے جب تک دنیا فناء کی حدود تک نہ پہنچ جائے واقعات اور جوادث ہوتے رہیں گے ان غیر محدود واقعات کے متعلق ان محدود نصوص میں صریح احکام کیسے مل سکتے تھے اس ئے ظاہریت کی راہ میں بالآخر تکلفات کی راہ بن گئی اور عملی زندگی میں زیادہ دور تک نہ جا سکتی اور ملتے جلتے نظائر سے حکم میں فرق اور تفاوت معقول اور پسندیدہ راہ نہیں شمار کی جا سکتی۔ اس لئے اگر ظاہری مکتب فکر ایک لحافظ سے بے خطر تھا تو دوسرے نقطۂ نظر سے بے کار بلکہ بسا اوقات مضحکہ خیز بھی ہوگا۔
قیاس اور تفقہ کی راہ
عملی زندگی میں آگے بڑھنے اور اسے آگے بڑھانے کے لئے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ نظائر اور ان کے احکام میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ شارع حکیم کے احکام کے وجوہ اور اسباب پر غور کیا جائے ان مصالح کا بغور مطالعہ کیا جائے جن کی بناء پر شارع حکیم نے یہ احکام نافذ فرمائے۔
اور قرآن عزیز نے جب قدم قدم پر عقل وفہم کو مخاطب فرمایا ہے۔ توحید ونبوت اور معاد کے