کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 24
ہے بلکہ علم وتفقہ حکمت مصالح کا یہ ترجمان دل ہی دل میں محسوس کر رہا تھا کہ جب مذاہب مجتہدین اسلام کی ترجمانی ہے اور ائمہ کی فقہ کا ماخذ قرآن اور سنت تو بعض تعبیرات کو کلیۃً کیوں ترک کیا جائے اور بعض پر قناعت کیوں کی جائے اگر کسی موسم اور کسی ملک میں ایک تعبیر اسلامی مصالح اور دینی مقاصد کے چوکھٹے میں پوری طرح سازگار آسکے تو بالکل ممکن ہے کہ دوسری تعبیر دوسرے ماحول میں اس سے بھی زیادہ سازگار آئے۔ نبوت جب ختم ہوچکی ہے تو صرف ترجمانی اور تعبیر کو کیوں نبوت کی طرح دائمی اور دوامی حیثیت دی جائے۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ دین کے خادم ہیں اور اسلام کے ترجمان۔ دین ان کا دست نگر اور خادم نہیں کہ ان کے ارشادات اور احکام کے لئے ہر وقت چشم براہ رہے۔ فقہاء کی عرصہ سے یہ حالت تھی وہ اس رسمی اور فقہی تقلید کو واجب اور فرض سمجھتے تھے اس کی مزعومہ حیثیت کی بناء پر انکار وتکفیر اور ایک دوسرے کی اقتداء سے حتمی طور پر روکا جاتا تھا۔ یہ سوتیلی ماں کا سا معاملہ ایک دانشمند کے لئے موجب حیرت تھا۔ شافعی حنفی ہو تو سزا پائے اور حنفی شافعی ہو خلعت ملے۔ یہ کیسی حق پروری ہے؟ یہ عجیب وطیرہ تھا کہ علماء کے اقوال اور ارشادات، اور نصوص کتاب وسنت میں جب اختلاف ہو تعارض ہو ہو تو تاویل اور توڑ پھوڑ نصوص کا حصہ تھا اور اپنی جگہ پر قائم رہنا ائمہ کی فقہیات کا حق تھا اور پھر دعویٰ یہ کہ اصل مطاع نبوت ہے اجتہاد نہیں۔ یہ دو عملی اور تضاد حضرت شاہ صاحب ایسے دور اندیش معاملہ فہم فقیہ کے لئے کیسے اطمینان کا موجب ہو سکتا تھا؟ اس لئے ظاہر ہے کہ جمود پیشہ اور قاصر النظر دنیا کی سیرابی اور اطمینان کے اسباب دواعی ایک بالغ النظر اور تجدیدی ذہن کے لئے کبھی اطمینان کا موجب نہیں ہو سکتے تھے اس لئے شاہ صاحب کی تشنگی فطری اور قدرتی تھی۔ پھر جمود اور استعداد اجتہاد کا فقدان فقہائے احناف سے مخصوص نہ تھا بلکہ تقلید کے مزاج کا تقاضا تھا کہ وسعت نظر اور دقت فکر سے ممکن طور پر اجتناب کیا جائے۔ دلائل کی چھان پھٹک کے مشغلہ سے بچ کر رجال اور ان کے اقوال کے سہارے پر زندہ رہنے کی کوشش کی جائے۔ جس طبیعت کا خمیر تجدید اور اجتہاد سے اٹھایا گیا ہو جہاں حکم اور مصالح ذوق میں سمو دئیے گئے