کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 22
شخصی رائے کے مطابق نہ ہو۔ یا کسی علاقہ کے علماء اپنے مخصوص افکار امت پر نہ ٹھونس دیں۔ بلکہ اصل مطمح نظر صحابہ اور اسلاف کرام کی وسعت نظر ہو۔ جمود اور شخصیت پروری سے امت میں ضیق نہ پیدا کیا جائے۔
جب نصوص نہ ہوں۔ کتاب وسنت میں احکام صراحۃ نہ ملیں تو رائے یا اجتہاد کے سوا چارہ نہیں صحابہ نے بھی اجتہاد فرمایا۔ ائمہ اربعہ اور دوسرے ائمہ مجتہدین نے بھی بوقت ضرورت اجتہاد فرمایا۔ وقت کے ضروری مسائل کو اجتہاد ہی سے سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ اہلحدیث اور فقہاء مذاہب سب ہی نے اجتہاد کیا اور قیاس شرعی یا میزانی .... وقت کے مسائل میں مخلصی کی راہ پیدا فرمائی
حافظ ابن حزم اور امام داؤد ظاہری کا قیاس سے بالکل صرف نظر کا نظریہ ائمہ حدیث میں مقبول نہ ہو سکا۔ اور فقہاء عراق میں تو اس کی گنجائش ہی کہاں تھی۔ اس لئے ائمہ حدیث اور فقہاء عراق میں قیاس سے استفادہ یا نظائر میں احکام کی وحدت کا جہاں تک تعلق ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں بوقت ضرورت قیاس کو سب درست سمجھتے ہیں بلکہ ضروری!
شاہ صاحب نے ان دو مختلف اور غیر معتدل نریات اور ان کے نتائج کے حسن وقبح سے متاثر ہو کر اپنے تلامذہ اور متوسلین کو یہ وصیت فرمائی
’’وصیت اول ایں فقیر چنگ زدن است بکتاب وسنت در اعتقاد وعمل وپیوستہ بتدبیر ہر دو مشغول شدل وہر روز حصہ از ہر دو خواندن واگر طاقت خواندن ندارد ترجمہ ورقے از ہر دو شنیدن دور عقائد مذہب قدماء اہل سنت اختیار کردن وتفصیل وتفتیش آنچہ سلف تفتیش کردہ اند اعراض نمودن و بہ تشکیکات معقولیاں خام التفات نکردن ودر فروع پیروی علماء محدثین کہ جامع باشد در حیز قبول آوردن والا کالای بدبر یش خاوند دادن امت را ہیچ وقت از عرض مجتہدات بر کتاب وسنت استثناء حاصل نیست وسخن متقشفہ فقہ کہ تقلید عالمی راوست آویز ساختہ تتبع سنت واترک کردہ اندنشنیدن ونظر بدیشان نکردن وقرربت خدا جستن بدوری ایشاں۔‘‘ تفہیمات ج2 ص240
فقیر کی پہلی وصیت یہ ہے کہ اعتقاد اور عمل میں کتاب وسنت کے ساتھ تمسک کرے اور