کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 21
سے بچتے تو جمود آجاتا، جمود سے بچنے کی کوشش کرتے تو آوارگی کے خاراستان میں دامن الجھ جاتا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، حافظ ابن قیم رحمہ اللہ ، علامہ محمد الشاطبی رحمہ اللہ ، عبد الرحمٰن بن اسمٰعیل رحمہ اللہ ، ابو شافۃ المقدسی وغیرہ کی تجدیدی مساعی اسی مدو جزر اور اس کی طغیانیوں کے متعلق تھیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ پیش نظر گزارشات میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی مساعی اور ان کے نتائج فکر کا تذکرہ اس نگاہ سے ہے کہ مغل دور کے اواخر میں جب جمود کی گھٹائیں ہند کے افق پر چھائی ہوئی تھیں اورنگ زیب عالمگیر جیسا نیک دل بادشاہ زیادہ سے زیادہ یہی کوشش کر سکا کہ اس نے فتاویٰ ہندیہ کی صورت میں علماء کے ذریعہ اسلام کی خدمت کی۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ان کے رفقا اور ان کے متوسلین نے اس اندھیرے ایک روشنی کے مینار کی طرف توجہ دلائی اور وہ فقہاء ومحدثین کا طریق تھا۔ شاہ صاحب ہندوستان کی حنفیت اور ابن حزم کی ظاہریت کو فقہاء ومحدثین کے دامن میں پناہ دینا چاہتے تھے۔ ہندوستان کے اہل توحید حنفی ہوں یا اہل حدیث۔ شاہ ولی اللہ سے کوئی صحیح نسبت ہے تو حنیفت خالصہ اور ظاہریت محضہ سے بچ کر انہیں فقہاء ومحدثین کا طریق اختیار کرنا چاہئے۔ اس دور میں اسلام کی یہ سب سے بڑی خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اتباع حق عمل اور اعتقاد میں اعتدال کی توفیق دے۔ آئندہ اوراق میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مختلف اذہان کے غلو میں صالح تحریکات نے کیا کردار نمایاں ادا کیا۔ تحریکاتِ سلفیہ نے مختلف ادوار میں کیا اصلاحات فرمائیں۔ فقہاء اسلام نے کیا خدمات انجام دین۔ صوفیاء نے کیا کیا اور ان تینوں اذہان پر شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ صاحب کی اصلاحی کوششوں نے کیا اثر ڈالا۔ ٭ شروع شروع میں لفظ ’اہل حدیث‘ کا مقصد یہ تھا کہ اجتہادی امور میں تقلید اور جمود کو دین میں پنپنے کا موقع نہ دیا جائے بلکہ صحابہ اور ائمہ اسلام کے اجتہاد سے وقت کے مصالح کے مطابق فائدہ اٹھایا جائے اور فقہی فروع میں جمود اور فرقہ پروری کی حوصلہ افزائی نہ ہونے پائے۔ اصل نظر کتاب اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مرکوز رہے۔ کتاب وسنت میں اگر کسی مسئلہ یا وقتی حادثہ کے متعلق صراحت موجود نہ ہو تو اس کا فیصلہ محض کسی