کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 20
سمجھا جاتا ہے کہ ظاھریت کا تعلق فن حدیث سے ہے۔ ابن حزم وغیرہ پر ظاہریت اسی لیے غالب رہی ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فقہی حیل اور ظاہریت دونوں ایک ہی ذہن کی پیداوار ہیں۔ ابن حزم اور ان کے رفقاء نے حدیث کے الفاظ کے ظاہر سے ٹھوکر کھائی اور ارباب حیل نے فقہی قواعد کے ظواہر سے دھوکہ کھایا۔ شارع کے مقاصد اور مصالح دونوں جگہ نظر سےا وجھل ہو گئے۔ دونوں جگہ الفاظ کی ظاہریت نے معاملہ فہمی اور ذکاء کی نگاہوں کو چکا چوند کر دیا۔
قیاس سے اگر نظائر کا صحیح جائزہ نہ لیا جا سکے اور شریعت کے مقاصد کا صحیح طور پر لحاظ نہ رکھا جا سکے۔ تو صرف قیاس کے اعتراف یا اسے اصول ادلہ مان لینے سے کچھ بھی حاصل نہیں۔ اکابر کے ارشادات اگر محض اکابر کی برتری کی وجہ سے قابل احترام ہوں تو یہ بھی ظاہر پرستی کی ایک قسم ہے اور جمود کا ایک نامناسب مظاہرہ۔
تاریخ مذاہب پر ایک نظر
حجاز، بخارا، مصر اور مغرب میں حدیث کا دور دورہ تھا۔ لوگ حدیث پڑھتے پڑھاتے تھے۔ حفظ و ضبط کی مجلسیں گرم تھیں۔ مدارس میں "حدثنا" اور "اخبرنا" کے غلغلے بلند تھے۔ یکایک حجاز اور مصر میں امام شافعی رحمہ اللہ کے حفظ و ذکاء کا اثر بڑھا۔ سوڈان سے اندلس تک امام مالک رحمہ اللہ کے مسلک فقہ کا اقتدار قائم ہوا۔ کوفہ سے ایران اور پھر اقصائے ہند میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی علمی ضیا باریوں نے اپنا اثر ظاہر کیا۔ نجد اور اس کے حوالی میں حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کی قربانیاں اپنا رنگ لائیں۔ اس کے علاوہ بھی بعض ائمہ اجتہاد نے بعض علاقوں پر اپنا اثر ڈالا جیسے امام اوزاعی رحمہ اللہ ، ابن جریر، طبری، حافظ ابن خزیمہ، داؤد ظاہری رحمہم اللہ تعالیٰ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان بزرگوں کے فہم اور طریقِ فکر کو بھی حدیث فہمی میں ضروری قرار دیا گیا۔ ابتداء میں یہ خیال تھا کہ ان حضرات کے افکار کا تتبع ذہن کو لغزش سے بچا سکے گا۔ لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ یہ فکرمندی خود ایک لغزش بن گئی اور سنگِ میل سنگِ راہ ہو گیا۔
ائمہ حدیث اور فقہاء کے مباحث، احناف اور شوافع کے مناقشات، اسلام کی خدمت کی بجائے بعض مقامات پر اسلام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ قرآن و سنت کے نصوص باہم تقسیم ہو گئے۔
تحریکاتِ اصلاح
اپنی تاریخ پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا ۔ ہر دور کے اہلِ علم اس مرض کے علاج میں مصروف رہے، آوارگی