کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 19
جانے لگی گویا وہ پیغمبر کی مخالفت ہے یہ دونوں غلو کی راہیں تھیں یہی مرض زہاد و اتقیاء میں نمودار ہوا ۔
وہاں بھی پیر کو مظہر خدا یا پیغمبر کا نعم البدل سمجھا جانے لگا ۔ بزرگوں کے عادات و رسوم اور اوراد و وظائف کو وحی کا مقام دیا گیا فقر و حال کو شریعت اور وحی کا رقیب ظاہر کیا گیا ۔ شرعی حلال و حرام کی ان حضرات کے کہنے پر بدل دیا گیا ۔ شرعی حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہنے میں ان حضرات کو کوئی تأویل نہ تھا ۔ یہ بھی ایک جمود ہے جو اسلام ک مزاج اور طبیعت کے بالکل خلاف ہے ۔ اسلام ایک متحرک دین ہے ۔ اس میں کتاب و سنت کو اساس قرار دے کر ہر دور میں فکری آزادی کی نہ صرف حمایت فرمائی گئی ہے بلکہ حریت فکر کے لیے ممکن طور پر راہیں ہموار کردی گئی ہیں ۔ اور جمود او رتقلید کو روکنے کی ہر کوشش عمل میں لائی گئی ۔
جمود شکن تحریکات
اسلام کی اشعات کے مختلف ادوار ہیں اس کے اثر و رسوخ اور مختلف اذہان کی عقیدتمندیوں اور مختلف قسم کے امیال و عواطف کی نیرنگیوں نے مد و جزر کی صورت اختیار کی کبھی ظاہر پسندی اور الفاظ کے تقاضوں نے اتنا زور پکڑا کہ قیاس صحیح اور مصالح کو شکست دے دی گئی کبھی آراء و مقاییس کی محبت نے ایسا جمود پیدا کیا کہ أراء رجال کے سامنے نصوص مہجور او رمتروک قرار پائے گئے ۔ فرضی مسائل کا نام شریعت رکھ دیا گیا ۔
اس مدو جزر کا نتیجہ حافظ ابن حزم کی ظاہریت ہے اور اسی کا نتیجہ فقہاء کی کتاب الحیل ہے جس نے عبادات سے لے کر معاشیات تک دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ۔ بڑے بڑے فواحش دین کے لبادہ میں عبادت اور تفقہ تصور ہونے لگے ۔ نماز ، روزہ ، حج حیل کی وباء سے محفوظ نہ رہ سکے عام طور