کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 18
بظواهر الألفاظ من كتابهم ويسمونهم الصلادقية وهم القراءون وفرقة ؟؟؟ المنقطعين للعبادة وللتسبيح والزهاد فيما سوى ذلك ويسمونهم الحسيديم (ابن خلدون ج1 ص187)
صلادقیہ تھا اور انہیں قراء بھی کہا جاتا تھا اور ایک گروہ فقراء اور زاہدوں کا تھا انہیں تسبیح وتہلیل کے سوا کسی چیز سے رغبت نہ تھی۔ ان کو حسیدیم کہا جاتا تھا۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
لتتبعن سنن من كان قبلكم حذو النعل بالنعل
تم پہلے لوگوں کے قدم بقدم چلو گے۔
مختلف ذہن
آج اسلام میں بھی تینوں قسم کے آدمی موجود ہیں۔ بعض شریعت پر غائر نظر رکھتے اور دین کے مصالح ہمشیہ ان کے پیش نظر رہتے ہیں۔ کچھ ظاہر بین ہیں جن کی نظر بالکل سطحی ہے اور زاہدوں کا گروہ تو پورے ملک کے ذہن پر چھا رہا ہے۔ خانقاہی نظام ابتداء میں کسی قدر اچھا تھا۔ اس کی تفصیلات معلوم ہیں۔ اب ظاہر ہے اکثر بدعات انہیں کے قدموں سے اٹھتی ہیں۔ اور بدعی فتنوں کا مرکز یہی لوگ ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد صحابہ میں فقہاء بھی موجود تھے، اہل ظاہر بھی، زاہد اور اتقیاء بھی پائے جاتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں مختلف طبقات رہے۔ اور یہ قسمیں اہل فکر میں موجود رہیں۔ لیکن اس میں کبھی بے اعتدالی ہوجاتی۔ جمود تو اسلام کی افتاد فطرت کے خلاف تھا۔ لیکن یہ جمود تینوں تحریکات میں آیا۔ کبھی ظاہر پرستی اس طرح اذہان پر چھا گئی کہ الفاظ کی پرستش شروع ہوگئی۔ لوگوں نے مقاصد اور مصالح کو نظر انداز کرکے محض الفاظ پر سارا زور صرف کر دیا۔ کبھی آراء رجال اور قیاساتِ علماء نے ذہن کو اس قدر متاثر کیا کہ شخصی آراء وافکار نے تقلید اور جمود کی صورت اختیار کرلی۔ ائمہ اور علماء کی تقلید کو واجب[1] اور فرض کہا جانے لگا۔ مقتدر علماء کی جزوی مخالفت اس قدر جرم سمجھی
[1] ائمہ اربعہ اور باقی ائمہ سنت اور ان کے علوم کے ساتھ تعلق کی آج جو جامد صورت پیدا ہو چکی ہے معلوم ہے ابتداء میں نہیں تھی نہ ائمہ اسے پسند فرماتے تھے اور نہ ان کے تلامذہ ۔ ہارون نے امام مالک کے سامنے مؤطاء کی آئینی حیثیت کا جب ذکر کیا تو امام مالک نے سختی سے اس کا انکار کیا ۔ (الدیباج ص 302 ) أئمہ اربعہ نے اپنی تقلید سے روکا حجۃ اللہ اور کتاب العلم لابن عبد البر وغیرہ میں ان کے ارشادات بصراحت موجود ہیں تعجب ہے کہ اکابر دیوبند آچ بڑی جرأت سے اسی جمود و تقلید کی دعوت دیتے ہیں اور اسے واجب تک کہنے سے گزیز نہیں فرماتے حالانکہ یہ صاحب شریعت کا وظیفہ ہے معلوم کہ تقلید اور اہل جمود دو چار سو سال بعد ہوا