کتاب: تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 14
پیش لفظ الحمد لله رب العلمين والصلاة على رسوله محمد خاتم النبين والسلام على أصحابه وأتباعه أجمعين میں مسلسل لکھنے کا عادی نہیں۔ پیدائشی طور پر ذہنی میلان دین کی طرف ہے اور عقیدۂ سلف سے طبعی شغف۔ تعلیم وتربیت بھی اسی نہج پر رہی۔ انگریزی تعلیم اور حضری مدارس سے نہ تاثر ہے نہ انس۔ اگر کبھی ضرورت ہو تو مذہبی مسائل پر ہی لکھتا ہوں۔ جہاں تک اپنے متعلق خیال ہے میں مناظر نہیں ہوں نہ آج کے رسمی مناظرات سے طبیعت آشنا ہے اس لئے حوالوں میں کانٹ چھانٹ، تراجم میں حسب مطلب قطع برید کی قطعاً عادت نہیں۔ مسلک اہلحدیث سے محبت ہے اور فن حدیث سے بلحاظ طالب علم کچھ تعلق اور اسی ماحول میں کم وبیش کچھ لکھنے کا موقع ملا ہے۔ حدیث کی اساس چونکہ قرآن ہے اس لئے قرآن عزیز کے ساتھ بھی اسی قسم کا تعلق ہے۔ بلکہ قرآن کو سنت سے قطع کرکے سمجھنے کی کوشش کرنا مجھے سمجھ میں نہیں آیا۔ مجھے معلوم ہے کہ کئی سال سے ہمارے ملک میں انکار حدیث کی تحریک چل رہی ہے اور کئی مراحل سے گزری ہے اور اس کے محرکین نے وقت کے تقاضوں کے مطابق کئی لباس بدلے ہیں۔ میں نے ابتداء میں یہ لٹریچر بطور طالب علم تحقیق کی نظر سے پڑھا۔ اب مجھے اس تحریک اور اس لٹریچر سے نفرت ہے اس شغل کو اضاعت وقت سمجھتا ہوں۔ صلاۃ القرآن، بیان القرآن، طلوع اسلام یہ اس تحریک کی بیچارگی کے مختلف مراحل ہیں۔ اس تحریک کی قیادت کے عمل اور فکر کا ما حصل یہ ہے کہ وہ قرآن کو مفصّل کہنے کے باوجود مجمل اور قابل تشریح وتفسیر سمجھتے ہیں اور قرآن کی تفسیر اور تشریح کے لئے لٹریچر شائع کرتے ہیں جس کا مطلب ظاہر ہے کہ قرآن عزیز کو ان حضرات کی تشریح کی ضرورت ہے۔ ان کے ہاں اس تشریح کو قبول کرنا گویا قرآن کو ماننا اور قبول کرنا ہے مگر اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے رفقاء کرام قرآن کے مقاصد کو بیان کریں تو اسے یہ حضرات نہ قبول کرتے ہیں نہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں بلکہ قطعاً نا پسند کرتے ہیں کوئی حدیث سمجھ میں نہ ےئے مگر اس کا انکار کر دینا سمجھ میں آتا ہے۔ ائمہ حدیث نے جن احادیث کو اپنے معیار پر نہیں پایا ان کا انکار کر دیا یا ان کو موضوع فرما دیا لیکن چند احادیث سمجھ میں نہ آئیں تو پورے ذخیرہ اور فن کا انکار بالکل سمجھ میں نہیں آتا عقل کو اس پر حیرت ہوتی ہے۔