کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 99
کہ اس طرح ایک رجعی طلاق ہوتی ہے۔ یہ مذہب اہل حدیث حضرات نے بھی اختیار کیا ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ‘ طائوس رحمۃ اللہ علیہ ‘ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن اسحق رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے۔ پس کسی اہل حدیث عالم کو اس حکم کی وجہ سے کافر کہنادرست نہیں اور نہ ہی وہ مستحق اخراج از مسجد ہے۔ ہاں حنفی کا اہل حدیث سے فتویٰ حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا بہ اعتبار تقویٰ ناجائز تھا۔ لیکن وہ بھی اگر مجبوری اور اضطرار کی حالت میں اس کا مرتکب ہو تو قابل درگزر ہے۔‘‘ (۳) مفتی حبیب المرسلین مدرسہ امینیہ دہلی کا فتویٰ: ’’بعض سلف صالحین اور علماء متقدمین میں سے اس کے بھی قائل ہیں‘ اگرچہ ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ میں یہ بعض نہیں ہیں۔ لہٰذا جن مولوی صاحب نے مفتی اہل حدیث پر جو فتویٰ دیا یہ غلط ہے۔ اس اختلاف کی بنا پر کفر و مقاطعہ، اخراج از مسجد کا فتویٰ صحیح نہیں ہے۔ بوجہ شدید ضرورت اور خوف مفاسد اگر طلاق دینے والا ان بعض علماء کے قول پر عمل کرے گا جن کے نزدیک طلاق ایک ہی واقع ہوتی ہے‘ تو خارج از حنفی مذہب نہ ہوگا۔ کیوں کہ فقہاء حنفیہ نے شدت ضرورت کے وقت دوسرے امام کے قول پر عمل کر لینے کو جائز لکھا ہے۔‘‘ (مقالات ص۳۰‘۳۱) مندرجہ بالا فتاوی سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں: (۱) یہ سب حضرات حنفی مذہب سے خارج ہونے کو اسلام سے خارج ہونے کے مترادف نہیں سمجھتے۔ (۲) چونکہ ردالمختار میں ’’اشد ضرورت‘‘ ’’مفاسد زائدہ‘‘ وغیرہ کے الفاظ موجود ہیں‘ لہٰذا مفتی صاحب کو ان الفاظ کی تاکید کے ساتھ ہی کسی دوسرے عالم سے فتویٰ لینے کی اجازت ہے۔ (۳) اس خاص مسئلہ میں کسی دوسرے عالم سے مراد کم از کم ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ کے مقلدین نہیں ہو سکتے، جن سے فتویٰ لینے اور اس پر عمل کرنے، یعنی طلاق ثلاثہ کو رجعی طلاق قرار