کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 98
طرف رجوع کرنے کی احتیاج باقی نہ رہے۔ اور انتہائی شرم ناک پہلو یہ ہے کہ بعض مقامات پر ایسے کرایہ کے سانڈوں کا مذہبی سطح پر بندوبست بھی کیا جانے لگا اور یہ بھی نہ سوچا کہ خود علمائے احناف اگر تطلیق ثلاثہ کے قائل ہیں تو بالکل اسی طرح وہ نکاح حلالہ کی حرمت کے بھی قائل ہیں۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر حلالہ کا نکاح ہی حرام اور باطل ہو تو حلالہ کے بعد عورت زوج اول کے لیے حلال کیسے ہو جاتی ہے؟ اور اگر وہ ایسا کر بھی لیتے ہیں تو کیا یہ سب کچھ حرام کاری یا زنا ہی نہ ہوگا؟ پھر کیا اس حرام کاری سے وہ صورت بہتر نہیں جس میں حلالہ کے بغیر ہی عورت اور زوج اول آپس میں مل بیٹھیں اور جس سے زوجین کی غیرت بھی مجروح نہیں ہوتی؟ یہ ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس تعزیری اور وقتی قانون کو تقلید کی پاسداری کے لیے شرعی قانون بنا کر پیش کرنے کے نتائج! اختلاف ختم نہ ہونے کی وجہ محض تقلید ہے: تطلیق ثلاثہ کے سلسلہ میں کسی بھی دوسرے امام سے فتویٰ لینے سے متعلق چند ممتاز حنفی علمائے دین کے فتوے ملاحظہ فرمائیے: (۱) مولانا عبدالحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ (فرنگی محل) کافتویٰ: ’’اس صورت میں حنفیہ کے مطابق تین طلاق ہو گی اور بغیر تحلیل نکاح درست نہ ہوگا۔ مگر بوقت ضرورت کہ اس عورت کا علیحدہ ہونا اس سے دشوار ہو تو کسی اور امام کی تقلید کرے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ نظیر اس کی نکاح ’’زوج مفقود الخبر‘‘ موجود ہے۔ حنفیہ عند الضرورت قول امام مالکؒ پر عمل کر لینے کو درست سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ ’’ردالمختار‘‘ میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔‘‘ (۲) مفتی اعظم مولانا کفایت اﷲ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ: ’’ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے تینوں پڑ جانے کا مذہب جمہور علماء کا ہے اور ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ اس پر متفق ہیں۔ ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ بعض علماء اس بات کے ضرور قائل ہیں