کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 97
افسوس ناک پہلو: جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تطلیق ثلاثہ کا قانون نافذ فرمایا تھا تو اس سے آپ رضی اللہ عنہ کا مقصد عوام الناس کی اصلاح تھی۔ اس قانون کا ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آیا کہ لوگ حلالہ کے متعلق سوچ و بچار کرنے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دوسرا قانون یہ رائج فرمایا کہ محلل اور محلل لہٗ دونوں کو محض زانی قرار دے کر ان کو سنگسار کر دینے کی سزا مقرر کی۔ اس فاروقی درہ سے بہت حد تک لوگوں کی اصلاح ہو گئی‘ مگر بعد کے ادوار میں جب فاروقی درہ نہ رہا تو پھر حلالہ کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔ ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ کے اکثریتی اجتہاد نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس تعزیری قانون کو ایک شرعی مسئلہ بنا دیا اور تقلید کی روش نے اسے شہرت دوام عطا کی۔ دوسری طرف امت کا ایک ایسا طبقہ بھی تھا جو ابتدا ہی سے اکٹھی تین طلاق کو تین طلاق دینے والے کی حماقت، جلد بازی اور عصیان پر محمول کرنے کے باوجود اسے ایک ہی رجعی طلاق قرار دیتا۔ ہمارے ہاں یہ دونوں گروہ موجود ہیں‘ اگرچہ اکثریت احناف کی ہے جو تطلیق ثلاثہ کے بڑی شدت سے قائل ہیں اور اس مسئلہ میں خاصی کشیدگی بھی موجود ہے اب یہ بات بھی تقلید ہی کے ثمرات میں شمار کیجئے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے کر بعد میں پشیمان ہوتا ہے تو علمائے احناف اسے خود حلالہ کا راستہ دکھاتے ہیں۔ وہی حلالہ جس کے کرنے اور کرانے والے دونوں پر رسول اﷲ صلی اللہ وسلم نے لعنت فرمائی تھی۔ وہی حلالہ نکالنے والا شخص جسے آپ صلی اللہ وسلم نے ’’تیس مستعار‘‘ (یعنی کرایہ کے سانڈ) سے تعبیر فرمایا تھا۔ وہی حلالہ جس کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رجم کی سزا مقرر کی تھی۔ وہی حلالہ جو کسی بھی غیرت مند مسلمان کی غیرت کا جنازہ نکال دیتا ہے۔ اور وہی حلالہ جس کی زد میں آکر کئی عورتیں ہمیشہ کے لیے حیا باختہ ہو جاتی ہیں۔ اسی حلالہ کو ہمارے مقلد بھائیوں نے نہ صرف برداشت کیا بلکہ ’’هنیْئا مَرِیْئا‘‘ سمجھ کر اور اس کے فتوے دے دے کر ’’عنداﷲ ماجور‘‘ بھی ہونے لگے۔حتی کہ اس کار حرام کو حلال بنانے کے شرعی حیلے بھی بتانے لگے۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا رہا کہ کہیں تقلید کی روش پر آنچ نہ آنے پائے‘ یا کسی حنفی کو کسی اہل حدیث کی