کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 90
سکتے ہیں اور سائل کو یوں جواب دے سکتے ہیں کہ ’’قابل قبول بات رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کی ہے‘ نہ کہ میرے باپ کی‘‘ (ترمذی، ابواب الحج باب ماجاء فی التمتع)تو کیا حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کردار ہمارے لیے رہنمائی کا کام نہیں دے سکتا؟ اگر میں نے بیس بائیس معاملات میں پرویز صاحب اور پھلواری صاحب کے اعتراضات سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دامن کو پاک کیا ہے تو اگر مجھے کچھ راہ نظر آتی تو کیا میرے لیے یہ بات باعث سعادت نہ تھی کہ اس اعتراض کو بھی آپ رضی اللہ عنہ سے دور کر دیتا؟ پرویز صاحب اور پھلواری کا اعتراض یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تطلیق ثلاثہ کو نافذ کر کے دور نبوی اور صدیقی کے تعامل امت میں تبدیلی پیدا کر دی۔ اب قاری صاحب کے ’’یہ بھی سنت اور جائز اور وہ بھی سنت اور جائز‘‘ کہنے سے تو کام نہیں چلتا ‘ جب کہ شبلی نعمانی جیسے حنفی محقق اسے اولیات عمر رضی اللہ عنہ میں شمار کر کے اس تبدیلی کو تسلیم فرما رہے ہیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد کو اختلاف رکھنے والے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمین کے اجتہاد سے ’’کم صحیح‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اور پیر کرم شاہ ازہری صاحب کی تحریر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کمال احترام کو ملحوظ رکھنے کے باوجود انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس تبدیلی کی کوئی شرعی بنیاد نظر نہیں آتی۔ اسی طرح کے کئی دوسرے علماء کے اقتباس بھی ہم پہلے درج کر چکے ہیں۔ پھر میں نے اگر اس تبدیلی کو ’’اجتہادی غلطی‘‘ کے تحت لا کر اسے کتاب و سنت کی منشا کے خلاف لکھ دیا تو کون سی نئی بات کہہ ڈالی ہے‘ جسے حنفی علماء تسلیم نہیں کرتے؟ مزید برآں اگر ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس تبدیلی کو درست قرار دینے کے درپے ہو جائیں تو اس سے ایک ایسے مفسدہ کی طرف راہ کھلتی ہے جس کی طرف یہ حضرات ہمیں لے جانا چاہتے ہیں۔ یعنی ہمیں بھی یہ حق ہونا چاہئے کہ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق سنت رسول صلی اللہ وسلم میں حسب ضرورت تبدیلیاں کر لیا کریں۔ لہٰذا راہ صواب یہی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس تبدیلی کو کم صحیح یا کتاب و سنت کی منشا کے خلاف قرار دے کر آئندہ کے لیے اس مفسدہ کی راہ بند کر دی جائے۔ ویسے بھی ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ یہ ’’تبدیلی‘‘ ایک تعزیری حکم تھا۔