کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 86
فلاس اور اہل بیت‘ زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ ‘ دائود بن علی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اکثر ساتھی‘ قاسم رحمۃ اللہ علیہ ‘ ناصر رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام باقر رحمۃ اللہ علیہ ‘ اور جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ ۔ (۳) ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ : امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس مسئلہ میں دو روایتیں مذکور ہیں۔ ایک تو وہی جو مشہور ہے۔ دوسری یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی رجعی ہوتی ہے۔ (اغاثتہ اللہفان ص۱۵۷ طبع مصر بحوالہ مقالات علمیہ ص۱۱۲) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ : بعض مالکی اور بعض حنفی بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کرتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا بھی ایک قول یہی ہے، مازری نے اپنی کتاب میں امام محمد بن مقاتل (حنفی) سے یہ راویت نقل کی ہے۔ (مقالات ص۹۱) متاخرین میں سے: امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ساتھی آپ کے دادا احمد بن عبدالسلام حرانی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی فتویٰ دیا کرتے تھے۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ساتھی امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ ‘ نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ ‘ علامہ رشید رضا مصنف تفسیر ’’المنار‘‘ ج۹ص۱۸۳ (بحوالہ مقالات علمیہ) علامہ شیخ محمد شتوت۔ جامعہ ازہر مصر (الفتاوی ص۳۰۶) موجودہ دور کے علمائے احناف: شبلی نعمانی ‘ جنہوں نے ’’الفاروق‘‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ سے اختلاف رکھنے والے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمین کے اجتہاد کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے۔ (تفصیل پہلے گزر چکی ہے) مولانا محفوظ الرحمن صاحب قاسمی فاضل دیو بند‘ مولانا شمس صاحب (سیکرٹری جماعت