کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 83
اِنَّهَ کَان فی الصّدر الاول اذا ارسل الثلاث جملة لم یحکم الا بَوقوع واحِدَة الٰی زمن عُمر رضی اﷲ عنه ثم حکم بوقوع الثلاث سیاسة لکثرته بین الناس۔(مقالات ص۲۴) صدر اول میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو اس کے ایک ہونے کا فیصلہ دیا جاتا تھا، تاآنکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آگیا۔ لوگ چونکہ کثرت سے اکٹھی تین طلاق دینے لگے تھے‘ لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ نے سیاسی طور پر تینوں کے تین ہی واقع ہونے کا فیصلہ کر دیا۔ (۱۰) امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۲۵۵ھ): آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف ’’نیل الاوطار‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: ’’اہل علم کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ طلاق طلاق کے پیچھے واقع نہیں ہوتی‘ بلکہ صرف ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے‘‘ صاحب ’’بحر‘‘ نے اس کو ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا‘ اور ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے۔ طائوس‘ عطائ‘ صابر بن یزید ہادی‘ قاسم ناصر احمد بن عیسیٰ عبداﷲ بن موسیٰ بن عبداﷲ اور ایک روایت زید بن علی سے نقل کی ہے۔ اسی طرف متاخرین کی ایک جماعت گئی ہے‘ جس میں علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ‘ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اور محققین کی ایک جماعت شامل ہے۔ ابن مغیث نے اپنی کتاب الوثائق میں محمد بن وضاح سے نقل کیا اور مشائخ قرطبہ کی ایک جماعت جیسے محمد بن مقاتل و محمد بن عبدالسلام وغیرہ نے ایسا ہی فتویٰ نقل کیا ہے اور ابن المنذر نے اس کو اصحاب ابن عباس رضی اللہ عنہ یعنی عطائ رحمۃ اللہ علیہ ‘ طائوس رحمۃ اللہ علیہ اور عمرو بن دینار رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے‘ نیز ابن مغیث نے اسی کتاب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ‘ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے اور امامیہ سے بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق سے کچھ بھی واقع نہیں ہوتا نہ ایک طلاق اور نہ زیادہ (یعنی تین) بعض تابعین نے بھی ایسا کہا ہے۔ ابن عطیہ اور ہشام بن حکم سے روایت ہے کہ ابوعبیدہ اور بعض اہل ظاہر نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔ یہ سب لوگ کہتے ہیں کہ یہ طلاق بدعی ہے‘ اور بدعی طلاق خواہ ’’تین طلاق‘‘ یا ’’طلاق طلاق طلاق‘‘