کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 72
بیویوں میں تقسیم کر دی ہوں گی؟ فرض کیجئے کہ اس کی چار بیویاں تھیں۔ ان ۹۹۷ میں سے ۹طلاقیں تو بقایا تین بیویوں کے لیے ہوئیں‘ اس طرح وہ بھی اس سے جدا ہوئیں ۔ پھر بھی ۹۸۸ طلاقیں بچ رہیں ہیں‘ جو کسی کام نہ آسکیں۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ: اب حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا وہ فتویٰ ‘ جو قاری صاحب موصوف نے درج فرمایا ہے ‘ ملاحظہ فرمائیے: ’’ایک شخص نے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دے دی ہیں۔ تو حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا ’’تجھے علماء نے کیا کہا ہے؟‘‘ کہنے لگا، وہ کہتے ہیں کہ ’’وہ مجھ سے جدا ہوئی‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ ’’لوگوں نے سچ کہا۔‘‘ (منہاج ص۳۱۱ ص۴۵۷طبع بیروت) اب دیکھیے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دیں‘ اور ظاہر ہے کہ دین سے یہ مذاق ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے یہ تعزیر بہت کم ہے کہ صرف ان کی بیوی ان سے جدا کر دی جائے۔ ایسے لوگوں کو تو بدنی سزا بھی ضروری دینا چاہیے‘ جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایسے لوگوں کو مارا بھی کرتے تھے۔ اسی طرح ایک اور صاحب اپنی بیوی کو دو سو طلاقیں دے کر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس فتویٰ پوچھنے تشریف لائے تھے۔ انہیں بھی آپ رضی اللہ عنہ نے یہی جواب دیا تھا۔ (موطا امام مالک‘ کتاب الطلاق) تطلیقات ثلاثہ پر اجماع کا دعویٰ: قاری صاحب فرماتے ہیں: ’’ایک آیت اور دو حدیثوں سے ثابت ہو گیا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی رہی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ وسلم کے زمانہ میں بھی اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمین کے زمانہ میں بھی! اور اس کے بعد اس پر اجماع ہو گیا ور اس میں کسی کا اختلاف نہیں رہا، سوائے چند حضرات کے جن