کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 66
ناقابل اعتماد ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی یحییٰ بن العلاء کذاب اور واضع حدیث ہے۔ دوسرا عبید اﷲ بن ولید متروک الحدیث ہے۔ تیسرا ابراہیم بن عبید اﷲ مجہول ہے۔ (میزان الاعتدال للذہبی) ایسی ہی روایات کے باوصف ’’مصنف عبدالرزاق‘‘ حدیث کی چوتھے درجہ کی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ آٹھویں حدیث‘حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تین طلاقیں: یہ حدیث بیہقی کی ہے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی نے کہا‘ آپ کو خلافت مبارک ہو۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر خوشی کا اظہار کرتی ہو؟ جاؤ تجھے تین طلاق‘‘ جب اس کی عدت پوری ہونے لگی تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کو حق مہر کی بقایا رقم اور دس ہزار (مزید) بطور صدقہ بھیجے۔ جب ایلچی یہ کچھ لے کر آیا تو کہنے لگی ’’مجھ کو چھوڑنے والے دوست کی طرف سے یہ متاع قلیل ہے‘‘ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو روپڑے پھر کہا‘ ’’اگر میں نے اپنے دادا سے نہ سنا ہوتا، یا میرے باپ نے میرے دادا سے نہ سنا ہوتا کہ وہ کہتے تھے جو شخص بھی اپنی عورت کو طہروں میں تین طلاقیں دے یا غیر واضح طلاقیں دے تو وہ عورت خاوند پر حلال نہیں‘ تاآنکہ کسی دوسرے سے نکاح نہ کرے‘ تو میں اس عورت سے ضرور رجوع کر لیتا۔‘‘ (السنن الکبریٰ ‘ للبیہقی ج۷ص۲۳۶) یہ روایت بھی روایتہ اور درایتہ دونوں طرح سے ناقابل اعتماد ہے۔ روایتہ یوں کہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کا ایک راوی محمد بن حمید الرازی ہے جس کو ابوزرعہ نے کذاب اور ابو حاتم نے منکر الحدیث کہا ہے (اغاثۃ اللہفان ج۱ ص۳۱۷‘ ۳۱۹ بحوالہ مقالات ص۲۱۴) اور درایتہ اس لیے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے دادا ابو طالب تھے، جو مکی دور میں ہی بحالت کفر انتقال کر گئے تھے۔ جب کہ نکاح و طلاق کے احکام مدنی دور میں نازل ہوئے تھے گویا درایتہ بھی اس روایت میں دو خامیاں ہیں۔