کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 63
سے جدا ہو جاتی اور (تیرا ایک ہی دفعہ تین طلاق دینا) گناہ کا کام ہوتا۔‘‘ یہ اثر اگر صحیح ثابت ہو جاتا تو قطع نزاع کے کام آسکتا تھا، مگر مشکل یہ ہے کہ یہ اثر انتہائی مجروح ہے۔ کیوں کہ یہ حدیث درج کرنے کے بعد امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے خود لکھا ہے کہ اس ٹکڑے کا راوی شعیب ہے‘ جس میں محدثین نے کلام کیا ہے۔ دوسرا راوی رزیق ہے، جو ضعیف ہے ‘ تیسرا عطاء خراسانی ہے‘ جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شیعہ اور ابن حبان نے ضعیف قرار دیا ہے۔ سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ اسے جھوٹا بتاتے ہیں۔ اب اس اثر کے بالکل برعکس ایک روایت تفسیر قرطبی میں یوں ہے کہ: ’’عبداﷲ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں تو رسول اﷲ صلی اللہ وسلم نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ تین طلاقیں ایک طلاق شمارہوئی۔‘‘ (تفسیر قرطبی ج۳ص۱۲۹ بحوالہ مقالات ص۱۴۴) چھٹی حدیث: میری موجودگی میں کتاب اﷲ سے مذاق؟ یہ نسائی کی وہ حدیث ہے جس کا میں نے اپنی طرف سے اجمالی طور پر مفہوم بیان کیا تھا۔ حدیث کا متن یا اس کا ترجمہ یا حوالہ کچھ بھی درج نہیں کیا گیا تھا۔ اور وہ اجمالی ذکر یہ تھا کہ رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کی زندگی میں ہی ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے ڈالی تو آپ صلی اللہ وسلم غصہ کی وجہ سے کھڑے ہو گئے اور فرمایا ’’میری موجودگی میں کتاب اﷲ سے کھیلا جا رہاہے؟‘‘ اس کے بعد میں نے لکھا تھا ’’تاہم آپ صلی اللہ وسلم نے ایک ہی طلاق شمار کی‘‘ قاری صاحب موصوف نے تعاقب کرتے ہوئے اس فقرہ کے متعلق فرمایا ہے کہ : ’’کیلانی صاحب نے یہ جملہ اپنی طرف سے بڑھایا ہے اس لیے کہ حدیث میں ایسے کوئی الفاظ نہیں‘ جن سے معلوم ہو کہ آپ صلی اللہ وسلم نے تین کو ایک ہی شمار کیا۔‘‘ (منہاج ص۳۱۲) مجھے یہ تسلیم ہے کہ فی الواقع نسائی والی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ مگر قاری صاحب کا اعتراض اس صورت میں درست ہوتا اگر میں نسائی کی حدیث درج کر کے ترجمہ