کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 60
تھی۔ کیوں کہ یہ ممکن تھا کہ شدت غضب کی بنا پر وہ آپ صلی اللہ وسلم کی بات قبول نہ کر پاتے اور کافر ہو جاتے۔ اس لیے رسول اﷲ صلی اللہ وسلم نے دوسرے وقت کے لیے ٹوکنے کو مؤخر کر دیا۔ اور اتنا اسی وقت فرما دیا کہ ’’لا سبیل لك علیها‘‘ یعنی ’’تجھے اب اس عورت پر کچھ اختیار نہیں رہا‘‘ (۲) ’’یا یہ بات ہے کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا اس لیے مکروہ ہے کہ تلافی کا دروازہ بلا ضرورت بند ہوتا ہے اور حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں یہ بات موجود نہیں۔ کیونکہ لعان کرنے والے جب لعان پر مصر ہوں تو تلافی کا دروازہ یوں بند ہوتا ہے کہ پھر کبھی کھل نہیں سکتا اور عویمر رضی اللہ عنہ اس بات پر مصر تھے۔‘‘ (مقالات ص۱۴۷) مجوزین تطلیق ثلاثہ کے مزید دلائل: جہاں تک قاری صاحب کی پیش کردہ دو احادیث کا تعلق تھا تو ان کا جواب ہو چکا اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان تمام احادیث کا بھی جائزہ لے لیا جائے جو تطلیق ثلاثہ کے واقع ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہیں، تاکہ مسئلہ زیر بحث کے سب پہلو سامنے آجائیں۔ تیسری حدیث: فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت قیس کہتی ہیں کہ: طلقنی زوجی ثلاثا فلم یجعل رسول اﷲ سکنٰی ولا نفقة۔ مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں تو رسول اﷲ صلی اللہ وسلم نے میرے لیے (میرے شوہر کے ذمہ) نہ رہائش رکھی اور نہ نفقہ۔ اس حدیث سے استدلال یوں کیا جاتا ہے کہ اگر تین طلاق ایک ہی رجعی طلاق شمار ہوتی تو یقینا سکنی اور نفقہ شوہر کے ذمہ ہوتا۔ شوہر کے سکنٰی اور نفقہ سے سبکدوش ہونے کی ممکن صورت ہی یہ ہے کہ تین طلاقوں کو تین ہی (یعنی مغلظہ) قرار دیا جائے۔