کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 54
دے دیں۔ پھر اس کی جدائی کا بہت غم ہوا۔ رکانہ رضی اللہ عنہ سے رسول اﷲ صلی اللہ وسلم نے پوچھا ’’تم نے طلاق کیسے دی تھی؟‘‘ رکانہ نے کہا ’’میں تو تین طلاق دے چکا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ وسلم نے پوچھا ’’کیا ایک ہی مجلس میں؟‘‘ رکانہ رضی اللہ عنہ نے کہا’’ہاں ایک ہی مجلس میں‘‘ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا ’’تو یہ ایک ہی ہوئی اگر چاہو تو رجوع کرلو‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر رکانہ رضی اللہ عنہ نے رجوع کر لیا۔ اس حدیث کی روشنی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طلاق کے متعلق یہ رائے تھی کہ تین طلاق ایک ساتھ نہیں بلکہ ہر طہر میں الگ الگ ہونی چاہئے۔ احادیث مسلم کی طرح اس حدیث پر کئی اعتراضات کیے گئے ہیں‘ جن میں سے چار قابل ذکر اعتراضات درج ذیل ہیں: پہلا اعتراض: اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق اور ان کے استاد کے متعلق علمائے جرح و تعدیل کا اختلاف ہے۔ لہٰذا یہ حدیث حجت نہیں بن سکتی۔ جواب: ابن حجر کہتے ہیں کہ اس سند سے کئی احکام میں احتجاج کیا گیا ہے، جیسے رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کا اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو پہلے نکاح کی بنا پر چھ سال بعد ان کے خاوند ابو العاص رضی اللہ عنہ بن ربیع کے ایمان لانے پر انہیں لوٹانا (یہ حدیث ترمذی میں مذکور ہے‘ باب ماجاء فی الزوجین المشرکین سلم احد ہما) تو جب دوسرے مسائل میں اسی سند سے احتجاج کیا جا سکتا ہے‘ تو آخر اس مسئلہ میں کیوں نہیں کیا جاسکتا؟‘‘