کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 51
(چھٹا اعتراض) حدیث موقوف ہے: کہا جاتا ہے ’’اس حدیث میں کہیں یہ تصریح نہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کو بھی اس بات کا علم تھا کہ مسلمان لوگ تین طلاقوں کو ایک بنا رہے ہیں۔ دلیل تو تب بن سکتی تھی کہ رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کو اس بات کا علم ہوتا اور آپ صلی اللہ وسلم اسے نہ روکتے۔‘‘ اس اعتراض کا جواب حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دیا ہے کہ ’’صحابی جب یہ کہے کہ ہم رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کے زمانہ میں ایسا کرتے تھے تو یہ مرفوع کا حکم رکھتا ہے اور ایسے معاملات کو اس بات پر محمول سمجھا جاتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کو ایسے معاملات کا خواہ یہ چھوٹے ہوں یا بڑے‘ علم ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ وسلم نے انہیں برقرار رکھا۔‘‘ علاوہ ازیں معترضین کے اعتراض کی رو سے صورت حال یوں بنتی ہے کہ دور نبوی میں مسلمان ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک بنا کر اسے رجعی قرار دے لیا کرتے تھے۔ حالانکہ حقیقتاً وہ تین ہی پڑ جاتی تھیں اور عورت فی الواقع طلاق دینے والے پر حرام ہو جاتی تھی۔ اور رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کے علم میں یہ بات نہ آئی نہ لائی گئی تھی۔ اس طرح آپ صلی اللہ وسلم کی زندگی ہی میںنعوذ باﷲ زنا ہوتا رہا اور اﷲ تعالیٰ بھی خاموش دیکھتا رہا اور اس کا رسول صلی اللہ وسلم بھی؟ (ساتواں اعتراض) راوی کا فتویٰ روایت کے خلاف ہے: کہا جاتا ہے ’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین کا عمل اور فتویٰ اس کے خلاف ہے۔ خصوصاً حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کا بھی ‘ جو اس حدیث کے راوی ہیں۔ اس اعتراض کے دو جواب ہیں: (۱) اصول فقہ کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ : ’’اِنَّ الْاِعْتِبَارَ لِرِوایَةِ الرَّاوِیْ لَا بِرَاْیِهٰ‘‘ یعنی ’’راوی کی روایت کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ اس کی رائے کا‘‘ اور اس قاعدہ کی بنیاد یہ ہے کہ ’’فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ‘‘