کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 47
یکبارگی تین طلاق دینے کی بری عادت میں مبتلا تھے اور یہ عادت دور جاہلیت سے متواتر چلی آرہی تھی‘ جو دور نبوی صلی اللہ وسلم میں بھی ختم نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ دور نبوی صلی اللہ وسلم میں ایک شخص نے یکبارگی تین طلاقیں دیں تو آپؐ غصہ کی وجہ سے کھڑے ہوگئے اور فرمایا ’’میری زندگی میں ہی کتاب اﷲ سے یوں کھیلا جا رہا ہے؟‘‘ (۲) لوگوں کی اس بدعادت پر انہیں زجرو توبیخ تو کی جاتی تھی‘ کیونکہ یہ طریق طلاق کتاب و سنت کے خلاف تھا۔ تاہم ۱۵ھ تک عملاً یکبارگی تین طلاق کو ایک ہی قرار دیا جاتا تھا اور اس معصیت اور حماقت کے باوجود ان سے حق رجوع کو سلب نہیں کیا جاتا تھا۔ (۳) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ ’’فلو امضیناہ علیہم‘‘ اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ تعزیز و تادیب کے لیے تھا، تاکہ لوگ اس بری عادت سے باز آجائیں۔ اور اس لحاظ سے کہ آپ صلی اللہ وسلم نے یہ فیصلہ سرکاری اعلان کے ذریعہ نافذ کیا تھا‘ اس کی نوعیت سیاسی بن جاتی ہے۔ گویا یہ ایک وقتی اور عارضی قسم کا آرڈیننس تھا۔ (۴) اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے کوئی شرعی بنیاد موجود ہوتی تو آپ رضی اللہ عنہ یقینا استنباط کر کے لوگوں کو مطلع فرماتے۔ جیسا کہ عراق کی زمینوں کو قومی تحویل میں لیتے وقت آپ رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمین نے آپ رضی اللہ عنہ کے استنباط کو درست تسلیم کر کے اس سے پورا پورا اتفاق کر لیا تھا۔ چنانچہ اگر آپ رضی اللہ عنہ کسی آیت یا حدیث سے استنباط کر کے لوگوں کو مطلع کر کے یہ فیصلہ نافذ کرتے، تو پھر واقعی اس فیصلہ کی شرعی اور دائمی حیثیت بن سکتی تھی۔ صحیح مسلم کی مندرجہ بالا احادیث کے رجال چونکہ نہایت ثقہ ہیں‘ اس لیے ’’تطلیق ثلاثہ‘‘ کے قائلین ان احادیث کو ضعیف یا مجروح کہنے کی جرأت تو نہ کر سکے۔ البتہ ان احادیث کو اور بالخصوص ابن عباس رضی اللہ عنہ والی پہلی حدیث کو بے اثر بنانے اور اس کی افادیت کو ختم کرنے کے لیے اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیتے ہیں اور بہت سے اعتراضات وارد کیے جاتے ہیں، جنہیں جوابات کا نام دیا جاتا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ صحیح مسلم کی ایسی معتبر احادیث کی تاویلات ان حضرات کی طرف سے پیش کی گئی ہیں‘ جو اپنے موقف کی حمایت میں ضعیف اور مجروح روایات (بالخصوص ایسی روایات جو تیسرے اور چوتھے درجہ کی