کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 39
فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ نے طلاق دینے کا جو طریقہ بتلایا ہے وہ یہی ہے کہ ایک ایک طلاق ہر طہر میں دی جائے۔ ’’اَلَطَّلَاقُ مَرَّتَانِ … الخ۔‘‘ (مقالات ص۲۲۹) ہم حیران ہیں کہ جو طریقہ خود اﷲ تعالیٰ بتائیں وہ تو حسن ہو اور احسن طریق اس کی بجائے کچھ اور ہو‘ یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ مرحوم جو غالباً حنفی ہونے کے ناطے سے ایک مجلس کی تین طلاق ہی واقع ہونے کے شدت سے قائل نظر آتے ہیں، انہوں نے بھی اس طریق طلاق پر یہ تبصرہ فرمایا کہ: ’’اس صورت میں تین طہروں میں تین طلاق دینا بھی سنت کے خلاف نہیں ہے۔‘‘(تفہیم القرآن ج۵ص۵۵۷) ’’اور مالکیہ ایسی طلاق کو بدعی مکروہ کا نام دیتے ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن: ایضاً) میری معلومات کے مطابق تین طہروں میں تین طلاقیں پوری کرنے کا طریقہ طلاق کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ ابو داؤد میں جو حدیث رکانہ مذکور ہے اس کے آخر میں یہ ذکر ضرور آتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ رائے رکھتے تھے کہ تین طہروں میں طلاقیں دی جائیں۔ اس حدیث کے راوی بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی ہیں‘ جو فرماتے ہیں کہ رکانہ رضی اللہ عنہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالیں تو آپ صلی اللہ وسلم کے پاس گئی۔ آپ صلی اللہ وسلم نے رکانہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر پوچھا ’’طلاق کیسے دی‘‘ انہوں نے کہا ’’تینوں طلاقیں‘‘ آپ صلی اللہ وسلم نے پوچھا ’’ایک ہی مجلس میں؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہاں‘‘ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا ’’تو یہ ایک ہی ہوئی‘ اگر چاہو تو رجوع کر لو‘‘ اسی حدیث کے آخر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ رائے مذکور ہے۔ (حدیث آگے تفصیل کے ساتھ زیر بحث آئے گی) (۳) بدعی طلاق: بدعی یہ ہے کہ کوئی شخص (۱) بیک وقت تین طلاق دے دے‘ (۲) یا ایک طہر کے اندر