کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 38
سکتی تھی۔ اب دوسری طلاق کا موقعہ ۴صفر کو حیض کے بعد اور مقاربت سے پہلے ہی ممکن تھا۔ ۴صفر کو دی ہوئی رجعی طلاق کی عدت تین قروء گزرنے کے بعد ہی ایک طلاق بائن ہو جاتی ہے۔ طلاق کا مسنون طریقہ یہی ہے اور اس طریقے کے دو فائدے ہیں۔
پہلا یہ کہ عدت کے آخری وقت تک رجوع کا حق باقی رہتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ اگر بعد میں بھی فریقین رضا مند ہوں تو تجدید نکاح کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
احناف کے ہاں طلاق کی اقسام:
احناف کے ہاں طلاق کی تین اقسام ہیں:
(۱) احسن (۲) حسن (۳) بدعی (ہدایہ اولین‘ کتاب الطلاق‘ باب طلاق السنہ)
(۱) احسن:
احسن یہ صورت ہے جسے ہم پہلے طلاق کی صحیح اور مسنون صورت کے تحت درج کر چکے ہیں۔ یعنی ایک ہی طلاق دے کر عدت گزرجانے دینا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین اسی طریق طلاق کو پسند فرماتے تھے ۔ (ابن ابی شیبہ‘ بحوالہ تفہیم القرآن ج۵ص۵۵۷)
(۲) حسن:
طلاق حسن یہ ہے کہ ہر طہر میں مقاربت کیے بغیر ایک طلاق دے۔ یعنی ایک طہر میں پہلی‘ دوسری میں دوسری اور تیسری میں تیسری اس صورت میں۔
(۱) رجوع کا حق صرف پہلے دو طہروں میں رہتا ہے، تیسری طلاق دیتے ہی حق رجوع باقی نہیں رہتا۔ حالانکہ عدت ابھی تقریباً ایک ماہ باقی رہتی ہے۔
(۲) آئندہ جب تک عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے، پھر وہ دوسرا خاوند یا تو مر جائے یا اپنی مرضی سے بغیر کسی سازش یا دبائو کے طلاق دے دے‘ زوجین کے باہمی نکاح کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
اس قسم کی طلاق کو عموماً شرعی طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ حتی کہ پیر کرم شاہ صاحب ازہری نے