کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 37
اسے طلاق دے دے۔ اور یہی مطلب ہے اﷲ کے اس قول کا کہ عورتوں کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو۔
اس حدیث سے درج ذیل باتوں کا پتہ چلتا ہے:
(۱) حیض کی حالت میں طلاق دینے پر آپ صلی اللہ وسلم نے رجوع کا حکم فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں طلاق دینا خلاف سنت اور حرام ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا خلاف سنت اور حرام ہے ‘ تاہم طلاق واقع ہو جاتی ہے‘ ورنہ رجوع کے حکم کا کچھ مطلب نہیں نکلتا! [1]
(۲) طلاق طہر کی حالت میں دینی چاہئے[2] جس میں صحبت نہ کی گئی ہو[3] اور بہتر یہی ہے کہ طہر کے ابتدا ہی میں طلاق دی جائے۔
(۳)آپ صلی اللہ وسلم نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کو طلاق کا جو طریقہ بتایا‘ وہ یہی ہے کہ صرف ایک طلاق ہی دے کر عدت گزرنے دی جائے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد ’’طَلِقُوْهُنَ لِعَدَّتِهِنَّ‘‘ کا یہی مطلب ہے ۔
اب فرض کیجئے کہ عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ یکم محرم سے تین محرم تک حائضہ رہتی تھیں اور حضرت عبداﷲ رضی اللہ عنہ نے دو محرم کو طلاق دے دی۔ رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ اہلیہ کو اپنے پاس روک رکھیں اور رجوع کریں۔ یہ رجوع ۴ محرم سے آخر محرم تک والے طہر میں ہی ممکن تھا۔ اور رجوع کی وجہ سے اس طہر میں طلاق نہیں دی جا
[1] ’’اسی طرح فقہاء یہ قیاس فرماتے ہیں کہ اگرچہ بیک مجلس تین طلاق دینی خلاف سنت اور حرام ہے، تاہم تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔ قیاس کی حد تک تو ان کی بات درست معلوم ہوتی ہے، مگر اس نص کی موجودگی میں دور نبوی اور صدیقی اور فاروقی کے ابتدائی دو تین سالوں تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھی، اس قیاس کی چنداں وقعت باقی نہیں رہتی۔
[2] ’’غیر مدخولہ عورت کو طہر اور حیض دونوں حالتوں میں طلاق دی جا سکتی ہے‘‘
[3] ’’بے حیض عورت کو مباشرت کے بعد بھی طلاق دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح حاملہ عورت کو بھی مباشرت کے بعد طلاق دی جا سکتی ہے، کیونکہ ان تینوں صورتوں میں عدت کا کوئی مقصد مجروح یا مشکوک نہیں ہوتا‘‘