کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 36
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یَاَیُهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَالَکُمْ عَلَیْهِنَّ مَنْ عِدَّةٍ الاٰیة- (الاحزاب:۴۹)
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو‘ تو ان عورتوں پر تمہارے لیے کچھ عدت نہیں‘ جسے تم پوری کراؤ۔
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ عورتوں کا عدت گزارنا دراصل مردوں کے حقوق کی نگہداشت کے لیے ہوتا ہے تاکہ
(۱) اگر وہ چاہیں تو عدت کے دوران کسی وقت بھی رجوع کر سکیں۔
(۲) ان کے نسب میں کسی قسم کے اشتباہ کی گنجائش نہ رہے ۔
(۳) وراثت کے مسائل میں الجھاؤ پیدا نہ ہو۔
لہٰذا عدت کے دوران مطلقہ عورت کا سکنیٰ اور نفقہ طلاق دہندہ پر اور وفات کی صورت میں مرد کے لواحقین پر لازم قرار دیا گیا۔
طلاق کی شرائط:
اس سلسلہ میں بخاری کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے:
عن ابن عمر رضی الله عنه انه طلق امراته وهی حائض‘ علی عهد رسول اﷲ صلی اللہ وسلم فقال رسول اﷲ صلی اللہ وسلم مره فلیراجعها ثم یمسکها حتی تطهر ثم تحیض ثم تطهرله ان شاء امسك بعد وان شاء طلق قبل ان یمس فتلك العدة التی امراﷲ ان تطلق لها النساء۔(بخاری‘ کتاب الطلاق)
’عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کے زمانہ میں اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا ’’عبداﷲ کو حکم دو کہ رجوع کر لے اور حیض سے پاک ہونے تک اپنے پاس رہنے دے۔ پھر اس کو حیض آنے دے‘ پھر جب حیض سے پاک ہو تو اب چاہے تو اپنے پاس رکھے اور چاہے تو صحبت سے پہلے