کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 35
نزدیک تیسرا حیض شروع ہونے تک اس کے تین طہر پورے ہو چکے ہوں گے۔ یعنی یکم ربیع الآخر کی صبح حیض شروع ہونے پر اس کی عدت ختم ہو گی۔
عدت کا مقصد:
عدت کا ٹھیک ٹھیک شمار کرنے پر قرآن کریم نے خاصا زور دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یَاَ یُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّةَ الاٰیة۔ (الطلاق:۱)
اے نبی صلی اللہ وسلم ! مسلمانوں سے کہہ دیجیے کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے لیے طلاق دو اور اس عدت کی مدت کو گنتے رہو۔
عدت کا شمار اس لیے اہم ہے کہ اس دوران عورت سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اسے واضح الفاظ میں منگنی کا پیغام بھی نہیں دیا جاسکتا۔
کوئی عورت عدت کے اندر نکاح کرے تو وہ نکاح باطل ہوگا:
عدت کا مقصد تحفظ نسب اور میراث کے تنازعات کو ختم کرنا ہے۔ عدت کے اندر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ عورت حاملہ ہے یا نہیں؟ اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل تک ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ جس عورت کو صحبت سے پہلے ہی طلاق ہو جائے اس کی کچھ عدت نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں نہ نسب کے اختلاف کا کوئی امکان ہے نہ وراثت کے تنازعہ کا۔
خاوند کا حق رجوع:
عدت کا عرصہ عورت کو اپنے خاوند کے ہاں گزارنے کا حکم ہے۔ کیونکہ اس دوران وہ خاوند کی زوجیت میں ہوتی ہے۔ عدت کے دوران خاوند کسی وقت بھی رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے اور اس رجوع میں وہ اپنی عورت کی مرضی کا پابند نہیں ہے۔ نکاح کے وقت عورت کی رضا مندی ضروری ہے‘ مگر رجوع کے لیے عورت کی رضا مندی ضروری نہیں ہے۔