کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 34
عدت کے مسائل واحکام کی وضاحت کی جاتی ہے۔ اور وہ درج ذیل ہیں:
عدت کے مسائل واحکام:
(۱) بیوہ غیر حاملہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ (البقرہ: ۲۳۴)
(۲) بیوہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ سبیعہ اسلمیہ کے ہاں خاوند کی وفات کے تقریباً ایک ماہ بعد (مختلف روایات میں یہ مدت ۲۰دن سے ۴۰دن تک ہے) بچہ پیدا ہوا تو رسول اﷲ صلی اللہ وسلم نے اسے اگلے نکاح کی اجازت دے دی۔
(بخاری‘ کتاب الطلاق)
(۳) غیر مدخولہ عورت خواہ وہ بیوہ ہو یا مطلقہ‘ اس کی کوئی عدت نہیں۔ (الاحزاب:۴۹)[1]
(۴) بے حیض عورت، خواہ ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو یا بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے آنا بند ہو چکا ہو‘ کی عدت تین ماہ قمری ہے۔ (الطلاق:۴)
(۵) مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ (ایضاً)
(۶) حیض والی غیر حاملہ کی عدت تین قروء ہے۔ (البقرہ:۲۲۸) قرء بمعنی حیض بھی اور طہر بھی۔
احناف اس سے تین حیض مراد لیتے ہیں۔ جب کہ شوافع اور مالکیہ تین طہر مراد لیتے ہیں۔ اس فرق کو درج ذیل مثال سے سمجھیے کہ:
طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ عورت جب حیض سے فارغ ہو تو اسے طہر کے شروع میں ہی بغیر مقاربت کیے طلاق دی جائے اور پوری مدت گزر جانے دی جائے‘ عدت کے بعد عورت بائن ہو جائے گی۔ اب فرض کیجئے کہ ایک عورت ہندہ نامی کو ہر قمری مہینہ کی ابتدائی تین دن ماہواری آتی ہے‘ اس کے خاوند نے اسے حیض سے فراغت کے بعد ۴محرم کو طلاق دے دی۔ تو احناف کے نزدیک اس کی عدت تین حیض یعنی ۳ ربیع الآخر کی شام جب وہ حیض سے فارغ ہو جائے گی تو اس کی عدت ختم ہوگی۔ جب کہ شوافع اور مالکیہ کے
[1] ’’اس عورت کا اگر مہر مقرر ہوا ہو تو نصف مہر خاوند کو ادا کرنا ہوگا۔ اور اگر حق مہر مقرر نہ ہوا ہو تو حسب استطاعت کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہئے‘‘(۲/۲۳۶،۲۳۷)