کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 33
اب دیکھئے آیت مذکورہ میں ’’فَاِمْسَاكُ بِمَعْرُوف‘‘ کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ تین تو درکنار‘ دو طلاقیں بھی بیک وقت دینا اس آیت کے مفہوم کے صریح خلاف ہے ’’فَاِمْسَاكُ بِمَعرُوْفٍ‘‘ کا تعلق پہلی طلاق کے بعد بھی ہے اور دوسری کے بعد بھی۔ اندریں صورت جو تیسری طلاق کے وقت لفظ ’’فائ‘‘ استعمال ہوا ہے وہ تعقیب مع الوصل کے لیے کیونکر ہو سکتا ہے؟ بالخصوص اس صورت میں کہ درمیان میں خلع کے احکام بھی بیان کیے جا رہے ہیں؟ لہٰذا ہمارے خیال میں اگر ’’فائ‘‘ کو ’’تعقیب مع الوصل‘‘ کے لیے قرار دینا ہی ہے تو کیوں نہ ’’فَاِمْسَاكُ‘ کی ’’فائ‘‘ کو ایسا قرار دیا جائے جو ’’اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ‘‘ کے ساتھ ہی واقع ہے۔ اتنی دور جا کر ’’فَاِنْ طَلَّقَهَا‘‘ کی ’’فاء ‘ کو ’’تعقیب مع الوصل‘‘ قرار دینے کی کوئی تک نظر نہیں آتی۔ قاری صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ ’’اگر ’’فاء ‘‘ کی بجائے ’’ثم‘‘ کا لفظ آتا تو پھر یہ معنی بنتے کہ ایک طہر میں ایک طلاق، دوسرے میں دوسری اور تیسرے میں تیسری طلاق۔ اس صورت میں ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ایک ہی واقع ہوتیں۔ مگر یہاں ایسا نہیں ہے۔‘‘ (منہاج ص۳۰۳) گویا قاری صاحب موصوف کے نزدیک قرآن کی آیت کے مطابق طلاق دینے کی یہ شکل بالکل درست ہے کہ یک لخت تین طلاقیں دے کر انہیں تین ہی شمار کر لیا جائے۔ کیونکہ حرف ’’ فاء ‘‘ کا یہی تقاضا ہے، اور یہ جو طلاق دینے کا شرعی طریقہ مشہور ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق دی جائے‘ دوسرے میں دوسری، تیسرے میں تیسری۔ تو طلاق کی یہ شکل قرآن کی آیت کی رو سے درست نہیں ۔ کیونکہ ایسی صورت تو ’’ثم‘‘ کے لفظ کا تقاضا تھا جو یہاں استعمال نہیں ہوا۔ اب ہم یہ بتائیں گے کہ قاری صاحب اپنی بات کی پچ میں آکر اپنے ہی مسلک کے خلاف کیا کچھ باتیں فرما گئے ہیں؟ اس کیلئے ہمیں طلاق کی مختلف شکلوں پر نگاہ ڈالنا ہوگی۔ طلاق کی مختلف شکلیں اور ان کے احکام: طلاق کی مختلف صورتوں کی وضاحت کے لیے چونکہ عدت کا تعین ضروری ہے‘ لہٰذا پہلے