کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 31
کی۔ لہٰذا مخالفت کرنے والوں کی تقلید بھی اسی طرح درست ہے‘ جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تقلید درست ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فروعی اعمال میں کرید کر یقینی صورت معلوم کرنے کا ہمیں مکلف نہیں بنایا ہے کیونکہ ایسا کرنا عملاً ممکن نہیں ہے۔‘‘
(کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ ص۲۴۳۔۲۴۴ بحوالہ مقالات ص۶۶)
قرآنی آیت سے قاری عبدالحفیظ کا استدلال
’’فائے تعقیب‘‘ اور ’’ثم‘‘ کی بحث:
قاری صاحب موصوف فرماتے ہیں:
’’جمہور اپنے اس دعویٰ میں (یعنی ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع میں) قرآن پاک کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں:
’’فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْ بَعْدُ حَتیّٰ تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَه… اس سے متصل پہلی آیت سے اﷲ تعالیٰ نے دو طلاقوں کا ذکر کیا ہے ’’اَلطَّلَاقُ مَرَّتَاِنِ‘‘ اس کے فوراً بعد ’’فَاِنْ طَلَّقَهَا‘‘ والی آیت ہے۔ یعنی طلاقیں تو دو ہی ہیں‘کن اگر کسی شخص نے دو طلاقیں دینے کے فوراً بعد نادانی کی بنا پر تیسری طلاق بھی دے دی تو پھر اس کی بیوی اس کے لیے حلال نہیں رہے گی‘ جب تک کہ یہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے۔ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے حرف فا کو استعمال کیا ہے جو کہ تعقیب مع الوصل کے لیے آتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دو طلاقیں دینے کے فوراً بعد اسی مجلس میں تیسری بھی دے دی تو تیسری طلاق بھی واقع ہو جائے گی اور اب اس کے لیے بیوی حلال نہیں۔ یہاں پر اگر حرف ’’ثم‘‘ ہوتا ‘جو مہلت اور تراخی کے لیے آتا ہے پھر معنی یہ بنتے کہ ایک طہر میں ایک طلاق‘ دوسرے طہر میں دوسری اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق۔ اس صورت میں ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ایک ہی واقع ہوتیںـ مگر یہاں ایسا نہیں ہے۔‘‘ (منہاج مذکور ص۳۰۲)