کتاب: تین طلاق اور ان کا شرعی حل - صفحہ 30
زمانہ موجود چلا آرہا ہے۔ چنانچہ موجودہ دور کے ایک نامور مؤلف محمد حسین ہیکل نے اپنی تالیف ’’الفاروق عمر رضی اللہ عنہ ‘‘ میں اس مسئلہ پر مفصل بحث کی ہے‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کتاب اﷲ کے نص میں اجتہاد کیا تھا‘ جس کی آج ہم مخالفت کرتے ہیں۔ کیونکہ نص قرآنی کا مقصود یہ ہے کہ طلاق بالفعل ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ دینے پر واقع ہو اور شوہر کے لیے دو دفعہ رجوع کا موقع باقی رہے‘ کیونکہ اس کے اثرات زندگی پر گہرے مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے جب کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تین طلاقیں ہیں‘تو ایک ہی طلاق واقع ہو گی۔ کیونکہ طلاق ایک فعل ہے ‘ جسے واقع ہونا ہے۔ نہ کہ قول‘ جسے زبان سے ادا کرنا ہے۔‘‘ (مقالات ص۶۵) (۵)اور پانچواں گروہ وہ ہے جو تطلیق ثلاثہ کے قائلین اور مخالفین دونوں کو درست قرار دیتے ہوئے درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں، جیسا کہ مصر کی مطبوعہ کتاب ’’کتاب الفقه علی المذاهب الاربعه‘‘ کے مصنف عبدالرحمن الجزیری رقم طراز ہیں کہ: ترجمہ: ’’لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس پر (یعنی تطلیق ثلاثہ کے وقوع پر) اجماع ثابت نہیں ہے۔ چنانچہ بہت سے مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بلاشبہ مجتہدین میں سے تھے جن پر دین کے معاملہ میں پورا اعتماد کیا جا سکتا ہے‘ لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ کی تقلید کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ان کی رائے کے معاملہ میں تقلید کرنا واجب نہیں ہے‘ اگرچہ آپ رضی اللہ عنہ بھی مجتہد ہی تھے۔ رہا اکثریت کا آپ رضی اللہ عنہ سے اتفاق کرنا تو اس سے آپ رضی اللہ عنہ کی تقلید لازم نہیں آتی۔ ممکن ہے آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی تعزیر کی غرض سے اسے نافذ کیا ہو جبکہ لوگ خلاف سنت طریقہ پر طلاق دے رہے تھے۔ کیونکہ سنت یہی ہے کہ مختلف اوقات میں طلاق دی جائے۔ اور جو شخص سنت کے خلاف کرتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ اس کے ساتھ زجر کا معاملہ کیا جائے۔ مختصر یہ کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ تین طلاقیں بلفظ واحد ایک واقع ہوتی ہے‘ انہیں ان کا تین کہنا معقولیت پر مبنی ہے۔ کیونکہ عہد رسالت‘ دور صدیقی اور فاروقی کے ابتدائی دو برسوں تک ایک ہی طلاق واقع ہوتی تھے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو اجتہاد کیا‘ اس کی دوسروں نے مخالفت